بدھ 26 جمادی اولی 1446 - 27 نومبر 2024
اردو

عورت كى عدت ختم ہونے كے بعد رجوع كرنا

10438

تاریخ اشاعت : 20-02-2011

مشاہدات : 4545

سوال

كيا مرد اور عورت كے ليے جائز ہے كہ طويل عرصہ سے طلاق كى بنا پر عليحدگى ہو جانے كے بعد دوبارہ ايك دوسرے سے رجوع كر ليں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب مرد اپنى بيوى كو پہلى يا دوسرى طلاق دے دے اور بيوى كى عدت ختم ہو جائے تو عورت اپنے خاوند سے بائن ہو كر اس كے ليے اجنبى بن جاتى ہے، اور وہ اس كے پاس اسى صورت ميں واپس آ سكتى ہے كہ اس سے پورى اور مكمل شرعى شروط كے ساتھ نيا نكاح كيا جائے.

اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 2127 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

ليكن اگر خاوند اپنى بيوى كوت يسرى طلاق دے دے تو پھر يہ عورت اپنے پہلے خاوند كے ليے حرام ہو جاتى ہے حتى كہ وہ كسى دوسرے شخص سے شرعى نكاح رغبت كرے، اور اس ميں وطئ بھى ہو اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

يہ طلاقيں دو بار ہيں، پھر يا تو اچھائى سے روكنا يا عمدگى كے ساتھ چھوڑ دينا ہے، اور تمہيں حلال نہيں كہ تم نے انہيں جو دے ديا ہے اس ميں سے كچھ بھى واپس لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ دونوں كو اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكنے كا خوف ہو اس ليے اگر تمہيں ڈر ہو كہ يہ دونوں اللہ كى حدود قائم نہ ركھ سكيں گے تو عورت رہائى پانے كے ليے كچھ دے ڈالے، اس ميں دونوں پر گناہ نہيں، يہ اللہ كى حدود ہيں خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ كى حدوں سے تجاوز كر جائيں وہ ظالم ہيں .

پھر اگر اس كو ( تيسرى بار ) طلاق دے دے تو اب اس كے ليے حلال نہيں جب تك كہ وہ عورت اس كے سوا كسى دوسرے سے نكاح نہ كر لے البقرۃ ( 229 - 230 ).

سب اہل علم كے ہاں اس دوسرى آيت ميں آخرى طلاق سے مراد تيسرى طلاق ہے.

اور صحيحين ميں عروہ بن زبير سے مروى ہے كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے انہيں بتايا كہ ايك رفاعہ القرظى كى بيوى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كرنے لگى:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم رفاعہ نے مجھے طلاق دے دى اور يہ طلاق بتہ ہے، اور ميں نے اس كے بعد عبد الرحمن بن زبير قرظى سے نكاح كيا تھا، ليكن اس كے ساتھ تو بے جان سى چيز ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: لگتا ہے تم واپس رفاعہ كے نكاح ميں جانا چاہتى ہو، يہ اس وقت نہيں ہو سكتا حتى كہ وہ تمہارا ذائقہ چكھ لے اور تم اس كا ذائقہ چكھ لو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4856 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2587 ).

" بت طلاقى " كا معنى يہ ہے كہ: اس نے مجھے وہ طلاق دى ہے جس سے اس كے ساتھ ميرا نكاح اور عصمت ختم ہو جاتى ہے اور وہ تيسرى طلاق ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:

" حتى تذوقى عسيلتہ و يذوق عسيلتك " يہ جماع سے كنايہ ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ تين طلاق والى عورت اپنے طلاق دينے والے خاوند كے ليے حلال نہيں، حتى كہ وہ عورت كسى اور خاوند سے نكاح نہ كر لے، اور وہ خاوند اس عورت سے وطئ و جماع بھى كرے، اور پھر اسے چھوڑ دے اور اس عورت كى عدت ختم ہو جائے.

ليكن صرف عقد نكاح ہى سے وہ پہلے خاوند كے ليے مباح نہيں ہو جائيگى، سب صحابہ كرام اور تابعين عظام اور ان كے بعد والوں كا يہى قول ہے.

ديكھيں: شرح مسلم ( 10 / 3 ).

و اللہ تعالى اعلم و صلى اللہ على نبينا محمد

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد