بدھ 24 جمادی ثانیہ 1446 - 25 دسمبر 2024
اردو

ويب سائٹ پر موجود برائى اور تصاوير كے متعلق ويب سائٹ نگران اور مالك كى ذمہ دارى

104398

تاریخ اشاعت : 04-10-2008

مشاہدات : 8335

سوال

ويب سائٹس اور مجلسوں ميں عورتوں كى تصاوير اور گانے اور برائى منتشر ہيں، ويب سائٹ پر گانے بجانے، اور فنكارى اور سينما اور مختلف چينل كى قسم كھولنے كا حكم كيا ہے ؟
اور كيا ويب سائٹ كا نگران اعلى اور باقى ممبران پر بھى اس كا گناہ ہو گا ؟
بعض يہ عذر پيش كرتے ہيں كہ: ہم يہاں كسى كو عورتوں كى تصاوير كا اضافہ كرنے پر مجبور تو نہيں كرتے، اور نہ ہى انہيں اپنى تصوير لگانے كا كہتے ہيں، اسى طرح كيا وہاں كوئى موضوع لكھنے والے كا عورت كى تصوير لگانے كا گناہ نگران يا مينجر يا ويب سائٹ كے مالك پر بھى ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

گانے بجانے كى ويب سائٹ كھولنى جائز نہيں، اور نہ ہى اپنى ويب سائٹ پر گانے بجانے كى كوئى قسم كھولنى جائز ہے، اور اسى طرح گانے بجانے اور فنكاروں اور فلموں كى خبريں بھى ويب سائٹ پر دينا جائز نہيں، كيونكہ ايسا كرنے ميں برائى اور گناہ كى مشہور اور اس ميں معاونت ہوتى ہے.

صحيح احاديث موسيقى اور گانے سننے، اور مرد و عورت كے اختلاط اور حقيقتا يا فلموں ميں ستر ننگا كرنے كى حرمت پر دلالت كرتى ہيں، اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 5000 ) اور ( 1200 ) كے جوابات ميں ديكھ سكتے ہيں.

اس بنا پر ان برئيوں كو روكنا اور اس كے خلاف جنگ كرنا واجب ہے، نہ كہ اس كى طرف لوگوں كو دعوت دينا، اور اس كى طرف راغب كرنا، يا اس پر معاونت كرنا، يہ سب جائز نہيں، اور جو كوئى بھى كسى برائى اور گناہ ميں معاونت كرتا ہے، يا اس گناہ اور برائى كى طرف راہنمائى كرتا ہے وہ شخص بھى گناہ كرنے والے كے ساتھ گناہ ميں شريك ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كو، يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا المآئدۃ ( 2 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى ہدايت كى طرف بلايا اور راہنمائى كى اسے اس پر عمل كرنے والا كى طرح ہى اجر و ثواب ملےگا، اور ان كے اجر ميں كوئى كمى نہيں ہو گى، اور جس كسى نے كسى گمراہى كى طرف بلايا اور اس كى راہنمائى كى تو اسے اس پر عمل كرنے والے جتنا ہى گناہ ملےگا ان كے گناہ ميں كوئى كمى نہيں ہو گى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 4831 ).

دوم:

انسان يا پرندے يا حيوان وغيرہ ذى روح كى تصوير حرام ہے، اور اسے مجلس ميں ركھنا، يا اسے بطور ياداشت سنبھال كر ركھنا جائز نہيں ہے؛ كيونكہ تصوير كى حرمت كے عمومى دلائل اسى پر دلالت كرتے ہيں، اور ايسا كرنے والے پر لعنت كے دلائل بھى، آپ مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 22660 ) اور ( 8954 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

اس سے وہى مستثنى ہے جس كى بہت شديد ضرورت و حاجت ہو، مثلا شناختى كارڈ وغيرہ كے ليے.

اور حرام تصوير كے ضمن ميں ذى روح كے خيالى كارٹوں اور خاكے، يا بد صورت خاكے بھى شامل ہوتے ہيں؛ كيونكہ صحيح مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث مروى ہے:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر سے واپس تشريف لائے تو ميں نے اپنے دروازے پر ايك پردہ لٹكا ركھا تھا جس ميں پروں والے گھوڑوں كى تصوير تھيں، تو انہوں نے مجھے حكم ديا تو ميں نے اسے اتار ديا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2107 ).

الدرنوك: ايك قسم كے پردے كا نام ہے.

تو يہ حديث ذى روح كى تصوير كى ممانعت پر دلالت كرتى ہے چاہے وہ تصوير خيالى ہى ہو، اور اس كا حقيقت ميں كوئى وجود نہ ہو، كيونكہ حقيقت ميں پروں والے گھوڑے موجود ہى نہيں ہيں.

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" تصوير ميں حرمت كا دارومدار اس پر ہے كہ وہ ذى روح كى تصوير ہو، چاہے وہ تصوير كريد كر بنائى گئى ہو، يا پھر رنگ كى ساتھ، يا ديوار پر بنائى گئى ہو، يا كسى كپڑے پر، يا كسى كاغذ پر، يا كپڑے ميں بن كر بنى ہوئى ہو، چاہے وہ برش كے ساتھ بنى ہو، يا قلم كے ساتھ، يا كسى آلے اور مشين كے ساتھ، اور چاہے كسى چيز كى تصوير اس كى طبيعت اور حقيقت كے مطابق ہو، يا پھر اس ميں كوئى تبديلى اور تغير و تبدل كيا گيا ہو، يا اسے ميں كوئى خيالى تبديلى كر كے اسے چھوٹا يا بڑا كيا گيا ہو، يا اسے خوبصورت كر ديا گيا يا اسے بدصورت بنا ديا گيا ہو، يا وہ لائنيں لگا كر جسم كى ہڈيوں كا ہيكل بنايا گيا ہو، يہ سب برابر ہے.

تو حرمت كا دائرہ يہ ہوا كہ جو ذى روح كى تصوير بنائى گئى ہو وہ حرام ہے، چاہے وہ خيالى تصوير ہى ہو، جيسا كہ مثال كے طور پر قديم فراعنہ اور صليبى جنگوں كے قائدين اور فوجيوں كى خيالى تصاوير بنائى جاتى ہيں، اور اسى طرح عيسى عليہ السلام اور مريم عليہا السلام كى تصاوير اور مجسمے جو عيسائيوں كے گرجوں اور چرچوں ميں كھڑے كيے جاتے ہيں.. الخ.

يہ سب عمومى دلائل كى بنا پر حرام ہيں، كيونكہ اس ميں برابرى ہے، اور يہ شرك كا ذريعہ ہيں.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 479 ).

سوم:

ويب سائٹ كى مجلس مذاكرہ اور كالم نگارى ميں عورتوں كى تصاوير پيسٹ كرنا ايك قبيح عمل ہے، كيونكہ اس ميں حرام تصوير كا استعمال ہے، اور اس ليے بھى كہ اس ميں فتنہ و فساد اور شہوت كو ابھارنا ہے، اس ليے ويب سائٹ كے نگران حضرات پر واجب ہوتا ہے كہ وہ اس قبيح عمل سے روكيں؛ كيونكہ ہر استطاعت اور طاقت ركھنے والے شخص پر برائى كو روكنا اور اسے زائل كرنا واجب اور ضرورى ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو كوئى بھى تم ميں سے كسى برائى كو ديكھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روكے، اور اگر اس كى طاقت و استطاعت نہ ركھے تو اسے اپنى زبان سے منع كرے، اور اگر اس كى بھى طاقت و استعطاعت نہ ركھے تو پھر اسے اپنے دل سے برا جانے، اور يہ ايمان كا كمزور ترين حصہ ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 49 ).

اور بعض لوگوں كا يہ كہہ كر عذر پيش كرنا كہ: ہم كسى كو ان مضامين اور وغيرہ ميں عورتوں اور ان كى اپنى تصاوير پيسٹ كرنے پرمجبور تو نہيں كرتے، كوئى فائدہ نہيں ديگا؛ كيونكہ وہ بھى برائى كو روكنے پر مامور ہيں، جيسا كہ اوپر حديث ميں بيان ہو چكا ہے.

اور اگر اس مجلس ميں كوئى شركت كرنے والا كسى عورت كى تصوير لگاتا ہے تو وہ گنہگار ہوگا، اور جو اس برائى كو ختم كرنے كى بجائے سكوت اختيار كرے وہ بھى اس ميں برابر كا شريك ہے، چاہے وہ نگران ہو يا ذمہ دار، بنى اسرائيل پر اسى وجہ سے لعنت نازل ہوئى تھى كہ وہ برائى كو روكنے كى بجائے اس پر خاموش رہتے تھے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

بنى اسرائيل كے كافروں پر داود عليہ السلام اور عيسى بن مريم عليہ عليہ السلام كى زبانى لعنت كى گئى، اس وجہ سے كہ وہ نافرمانياں كرتے تھے، اور حد سے تجاوز كر جاتےتھے، وہ آپس ميں ايك دوسرے كو برے كاموں سے جو وہ كرتے تھے روكتے نہ تھے، جو كچھ بھى يہ كرتے تھے يقينا وہ بہت تھا المآئدۃ ( 78 - 79 ).

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى برائى پر سكوت اختيار كرنے كا انجام بتايا كہ برائى پر سكوت كى سزا عمومى ہلاكت ہے، اور اور سزا عام ہے، جيسا كہ بخارى شريف كى درج ذيل روايت ميں بيان ہوا ہے:

نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى كى حدود كو قائم ركھنے والى اور حدود كو پامال كرنے والى قوم كى مثال ان لوگوں كى طرح ہے كہ كچھ لوگوں نے ايك كشتى ميں قرعہ اندازى كى تو كچھ كو اوپر والا حصہ ملا اور كچھ كو نچلا حصہ ملا، تو نيچے والے لوگ جب پانى كى ضرورت محسوس كرتے تو اوپر والوں كے پاس سے گزر كر پانى ليتے، انہوں نے آپس ميں كہا كہ كيوں نہ ہم اپنے حصہ ميں سوراخ كر ليں اور اپنے اوپر والوں كو اذيت نہ ديں، اگر تو اوپر والوں نے انہيں سوراخ كرنے ديا تو وہ سب ہلاك ہو جائينگے، اور اگر انہوں نے ان كے ہاتھوں كو پكڑ كر انہيں اس سے منع كر ديا تو وہ سب نجات پا جائينگے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2493 ).

اس ليے ہمارى ويب سائٹ اور مجلس مذاكرہ كے نگران حضرات كو يہ وصيت ہے كہ وہ اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرتے ہوئے ايسے قواعد و ضوابط وضع كريں جو اعضاء اور ممبران كو برائى نشر كرنے يا برائى كى ترويج سے روك كر ركھيں، اور انہيں چاہيے كہ اپنى ويب سائٹ سے وہ سارى برائيوں كو ختم كر ديں كيونكہ وہ اس كے ذمہ داران ہيں اور انہيں اپنى اس ذمہ دارى كا اللہ تعالى كو جواب دينا ہے، اور اس ميں كثرت مشاركين كى رغبت انہيں اللہ تعالى كى حدود كو پامال كرنے پر مت ابھارے، اور نہ وہ اس كو برقرار ركھ كر گناہ ميں برابر كے شريك بنيں، اور نہ ہى وہ اس برائى پر خاموشى اختيار كريں، كيونكہ يہ خاموشى بھى اس برائى كى معاونت ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب كو اپنى رضا و خوشنودى كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب