الحمد للہ.
مرد پر عدت نہيں بلكہ يہ تو صرف عورتوں كے ساتھ مخصوص ہے، چاہے طلاق كى ہو يا وفاۃ كى عدت يہ صرف عورت پر ہے، صرف اتنا ہے كہ مرد كو پانچويں عورت سے شادى كرنے سے اس وقت تك منع كيا جائيگا جب تك اس كى چوتھى بيوى كى عدت ختم نہيں ہو جاتى.
اور اسى طرح مرد كو بيوى كى عدت گزرنے تك اس كى بہن يا خالہ يا پھوپھى سے شادى كرنا منع ہے، ليكن اسے عدت كا نام نہيں دينا چاہيے.
حطاب رحمہ اللہ كا قول ہے:
" جب كوئى شخص چوتھى بيوى كو طلاق دے يا طلاق دے يا جنہيں جمع كرنا حرام ہے اس حالت ميں اسے نكاح كرنے سے منع كرنے كو عدت كا نام دينا مجازا ہے، اسے شرعى عدت كى حقيقت ميں داخل نہيں كرنا چاہيے " واللہ اعلم " انتہى
ديكھيں: مواھب الجليل ( 4 / 140 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" عدت كے عرصہ ميں آدمى كا انتظار كرنا:
فقھاء كرام كہتے ہيں كہ مرد پر عدت واجب نہيں ہے، كيونكہ بيوى سے عليحدگى كے فورا بعد بغير كسى انتظار كے اسے كسى دوسرى عورت سے شادى كرنا جائز ہے، صرف يہ ہے كہ اگر اس ميں كوئى مانع ہو تو پھر وہ بيوى كى عدت ختم ہونے كا انتظار كريگا، مثلا اگر وہ اپنى بيوى كى پھوپھى يا خالہ يا بہن يا كسى اور عورت جس كے مابين جمع كرنا حرام ہے تو وہ انتظار كريگا، يا پھر چوتھى بيوى كو طلاق دے تو وہ چوتھى كى عدت ختم ہونے تك كسى دوسرى عورت سے شادى نہيں كر سكتا جب تك پہلى كى طلاق رجعى كى عدت ختم نہ ہو جائے، اس پر اتفاق ہے، اور احناف كے ہاں طلاق بائن كى عدت ختم ہونے تك بھى نہيں كر سكتا، ليكن جمہور كے ہاں اسے انتظار نہيں كرنا ہوگا، بلكہ وہ شادى كر سكتا ہے.
يہاں مرد كو شادى سے منع كرنے پر عدت كا اطلاق نہيں ہوگا كہ اسے عدت كا نام ديا جائے، نہ تو لغوى اعتبار سے اور نہ ہى اصطلاحى اعتبار سے اسے عدت كہا جا سكتا ہے، اگرچہ يہ عدت كے معنى پر محمول ہے.
نفراوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عدت كى حقيقت سے مراد عورت سے منع كرنا ہے، كيونكہ چوتھى كو طلاق دينے والے كو كسى دوسرى عورت سے نكاح كرنے سے روكنے كو عدت نہيں كہا جائيگا، نہ تو لغوى اعتبار سے اور نہ ہى شرعى طور پر؛ كيونكہ بہت سارى جگہوں پر وہ نكاح نہيں كر سكتا، مثلا احرام كى حالت ميں اور اسى طرح بيمارى ميں اس ليے يہاں ہم اسے يہ نہيں كہہ سكتے كہ وہ عدت گزار رہا ہے " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 306 ).
واللہ اعلم .