سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

جب بيوى كو كہا: تجھے طلاق اس سے وہ جھوٹ مراد لے رہا تھا يا پھر طلاق نہيں چاہتا تھا

104803

تاریخ اشاعت : 29-01-2015

مشاہدات : 3385

سوال

ميرے خاوند كے مجھ پر شكوك و شبہات كى بنا پر ميرے اور خاوند كے مابين بہت شديد جھگڑا ہوا اور ميرے اور اس كے مابين بہت لمبا مناقشہ اور بات ہوئى جس ميں سب و شتم اور گالى گلوچ اور لعن طعن بھى تھى جس كے نتيجہ ميں ميں اور خاوند دونوں ہى پھٹ پڑے...
ميں نے خاوند سے طلاق طلب كى اور اس كے رد فعل ميں خاوند نے مجھے طلاق دے دى اور وہ طلاق ديتے وقت بہت غضبناك تھا...
اس كے تين سال بعد ميرے اور اس كے مابين ايك بار پھر جھگڑا ہوا، ميرے حمل اور اس كے اسلوب ( سب و شتم ميں ) كے باعث ميں نے اس سے طلاق كا مطالبہ كر ديا اور كمرہ ميں داخل ہو كر كمرہ كو بند كر ديا، تو اسے خوف پيدا ہوا كہ ميں اپنے آپ اور پيٹ ميں موجود اس كے بچے كو نقصان نہ دے بيٹھوں اس نے مجھے نكالنے كے ليے دروازے كے پيچھے سے كہا ٹھيك ہے تجھے ميں نے طلاق دى، ليكن اس كى نيت ميں طلاق نہ تھى...
برائے مہربانى يہ بتائيں كہ دونوں حالتوں ميں شرعى دلائل كے مطابق طلاق ہوئى يا نہيں، حتى الامكان جواب جلد ديں كيونكہ ميں بہت پريشان ہوں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

خاوند كے شديد غصہ كى حالت ميں پہلى طلاق تو واقع نہيں ہوئى، جيسا كہ سب اہل علم كا مسلك ہے، اور غصہ كى اقسام اور اس كى طلاق پر تاثير كے متعلق تفصيلى جواب سوال نمبر ( 22034 ) ميں بيان ہو چكى ہے، اس ليے آپ اس كا مطالعہ كريں.

رہا مسئلہ دوسرى طلاق كا جو كہ خاوند كا يہ كہنا تھا: ٹھيك ہے ميں نے تمہيں طلاق دى " اس سے ايك طلاق واقع ہو جائيگى.

اور يہاں خاوند كى نيت كا اعتبار نہيں كيا جائيگا كيونكہ طلاق صريح الفاظ ميں ہوئى ہے جس ميں نيت كى كوئى ضرورت نہيں.

اور اگر فرض كريں كہ خاوند نے بيوى كو كہا: ميں نے تجھے طلاق دى، اور وہ اس سے اسے جھوٹى خبر دينا چاہتا تھا تو بھى طلاق واقع ہو جائيگى.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر كہے كہ ميں نے اسے طلاق دى اور وہ اس سے جھوٹ كا ارادہ ركھتا ہو تو بيوى كو طلاق ہو جائيگى؛ كيونكہ طلاق كے صريح الفاظ سے بغير كسى نيت كے طلاق واقع ہو جاتى ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 306 ).

چنانچہ خاوند كا بيوى كو كہنا: ميں نے تجھے طلاق دى يعنى اب، يا ميں نے پہلے سے ہى طلاق دے دى ہے، حالانكہ وہ اس ميں جھوٹا تھا، اس سے طلاق ہو جائيگى.

ليكن آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ كو اس چيز پر ابھارنے اور آمادہ كرنے والى چيز يہ خدشہ تھا كہ كہيں وہ پيٹ ميں موجود بچے كو تكليف نہ دے، اگر تو يہ خوف صحيح تھا اور اس كا سبب بھى ہو وہ يكہ اس كے ظن غالب پر يہ تھا، تو ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہ ايك طرح كا جبر اور اكراہ ہے اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى, واللہ اعلم.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" عقل پر پردہ ہونے كى حالت ميں طلاق نہيں ہے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2046 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 2047 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، اغلاق كا معنى جبر اور شديد غصہ ہے.

خاوند اور بيوى دونوں كو اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرتے ہوئے آپس ميں حسن سلوك كا معاملہ كرنا چاہيے، اور وہ اپنے سب حالات ميں طلاق كا ذكر كرنے سے اجتناب كريں، كيونكہ مشكلات كا علاج اس طرح نہيں كيا جاتا، بلكہ اس طلاق كے استعمال سے تو مشكلات ميں اور اضافہ ہوتا ہے، اور ہو سكتا ہے ان كے نہ چاہتے ہوئے بھى طلاق ہو جائے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ ميں محبت و مودت پيدا فرمائے، اور آپ كو اپنى اطاعت و پسنديدگى والے اعمال كرنے كى توفيق بخشے.

واللہ اعلم

.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات