بدھ 15 شوال 1445 - 24 اپریل 2024
اردو

نفاس كى حد چاليس يوم ہے

10488

تاریخ اشاعت : 04-03-2008

مشاہدات : 8758

سوال

نفاس كى زيادہ سے زيادہ حد كتنى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس مسئلہ ميں علماء كرام كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے:

1 - اكثر اہل علم كے ہاں نفاس كى زيادہ سے زيادہ مدت چاليس يوم ہے چنانچہ اگر چاليس يوم سے زيادہ كو استحاضہ شمار كيا جائيگا، ليكن اگر حيض اس كے ساتھ ہى مل جائے تو اسے حيض شمار كيا جائيگا.

امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا يہى مسلك ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ سے مشہور روايت يہى ہے جسے امام ترمذى نے سنن ترمذى ميں سفيان اور ابن مبارك اور اسحاق وغيرہ اكثر اہل علم سے بيان كيا ہے.

2 - امام مالك اور امام شافعى اور امام احمد ايك روايت ميں كہتے ہيں كہ اس كى زيادہ سے زيادہ مدت ساٹھ يوم ہے.

3 - اور حسن بصرى كہ كہنا ہے كہ: چاليس سے پچاس يوم تك نفاس ہے اور اس سے زائد استحاضہ شمار ہوگا.

4 - اس كے علاوہ بھى كئى ايك اقوال ہيں جو كہ اجتھادات ہيں جن كى كوئى صحيح دليل نہيں، صرف پہلے قول كى دليل درج ذيل حديث ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" نفاس والى عورتيں چاليس يوم تك انتظار كريں "

اسے ابن جارود نے المنتقى ميں روايت كيا ہے.

اور ترمذى وغيرہ ميں مسۃ ازديہ سے روايت ہے كہ ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كا فرمان ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں نفاس والى عورتيں چاليس يوم بيٹھا كرتى تھيں، اور ہم كلف كى بنا پر اپنے چہروں پر ورس ملا كرتى تھيں"

اسے احمد، ابو داود، ترمذى، اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے.

اس كى سند ميں اختلاف ہے، ابن قطان نے " الوھم والايھام " ميں اور امام ابن حزم نے اسے ضعيف قرار ديا ہے، اور امام حاكم نے اسے صحيح اور نووى وغيرہ نے اسے حسن قرار ديا ہے.

ابن عبد البر رحمہ اللہ " الاستذكار " ميں لكھتے ہيں:

نفاس كى زيادہ سے زيادہ مدت كے مسئلہ ميں كوئى جگہ اتباع اور تقليد كے لائق نہيں، صرف جس نے چاليس يوم كا كہا ہے اس كى بات تسليم كى جائيگى، كيونكہ وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ ہيں، اور ان ميں سے اس قول كا كوئى مخالف نہيں.

اس كے علاوہ باقى جتنے بھى اقوال ہيں وہ صحابہ كے علاوہ دوسروں كے ہيں اور ہمارے نزديك ان كى مخالف كرنا جائز نہيں، كيونكہ صحابہ كرام كا اجماع بعد والوں كے ليے حجت ہے، اور نفس كو بھى ان پر اطمنان حاصل ہوتا ہے، سنت اور ان كے علاوہ كسى ايسى چيزكى طرف كيسے التفات ہو سكتا ہے جس كى كوئى اصل ہى نہ ہو.

اور يہ قول ہى صحيح ہے اس كى كئى ايك وجوہات ہيں:

پہلى وجہ:

يہ قول صحابہ كرام كا ہے، اور ان كا كوئى مخالف نہيں.

دوسرى وجہ:

اس مسئلہ ميں ان ايام كى تحديد ضرورى ہے جس ميں نفاس والى عورت بيٹھےگى، اور صحابہ كرام كے اقوال كے علاوہ كسى اور كے قول كى طرف تجاوز كرنا جائز نہيں.

تيسرى وجہ:

ڈاكٹروں اور طبيبوں كا بھى قول يہى ہے، جو كہ خون كى معرفت ركھنے والے ہيں اور اس ميں مختص ہيں، چنانچہ ان كا قول ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما اور اكثر اہل علم كى رائے كے موافق ہے.

ليكن اكثر اہل علم كے ہاں نفاس كى كم از كم مدت مقرر نہيں، چنانچہ جب عورت كا خون رك جائے تو اس كے ليے غسل كر كے نماز اور روزہ كى ادائيگى ضرورى ہے.

امام ابو عيسى ترمذى رحمہ اللہ نے جامع ترمذى ميں صحابہ كرام اور تابعين اور ان كے بعد والے اہل علم كا اجماع بيان كيا ہے كہ:

نفاس والى عورت چاليس يوم تك نماز روزہ ترك كرےگى، ليكن اگر وہ اس سے قبل پاك صاف ہو جائے تو غسل كر كے نماز روزہ كى ادائيگى كرنا ہو گى "

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب