الحمد للہ.
اول:
صريح طلاق كے الفاظ مثلا آدمى كہے: تجھے طلاق، يا ميرى بيوى كو طلاق، اس ميں طلاق واقع ہونے كى نيت كى شرط نہيں ہے، اگر وہ نيت نہ بھى كرے تو طلاق واقع ہو جائيگى ليكن اس ميں لفظ كا قصد اور اس كے معانى كى معرفت كا ہونا شرط ہے.
اس ليے اگر كوئى شخص نيند ميں يا پھر بھولنے والا شخص طلاق كا كلمہ بولے اور اس كا يہ الفاظ نكالنے كا مقصد نہ تھا تو طلاق واقع نہيں ہوگى.
اور اسى طرح اگر وہ عجمى شخص جسے طلاق كے معانى كا ہى علم نہيں وہ يہ الفاظ بولے تو طلاق واقع نہيں ہوگى.
اس بنا پر آپ كو اپنے تخيل كا ذكر كيا ہے كہ خيالاتى طور پر لوگوں كے اجتماع ميں دو بار طلاق دى اور يہ چيز تين يا چار بار تكرار سے ہوئى اور ہلكى آواز ميں يہ الفاظ صادر ہوئے اس سے طلاق واقع نہيں ہوئى.
كيونكہ يا تو يہ اپنے آپ سے دل ميں بات كرنے ميں شامل ہوتا ہے، جو كہ معاف ہے، يا پھر آپ نے طلاق كے الفاظ بولنے كا ارادہ اور قصد ہى نہيں كيا تھا اس ميں شامل ہوتا ہے كہ آپ اس وقت طلاق نہيں دينا چاہتے تھے.
بلكہ يہ تو آپ كا تخيل تھا جو ہو سكتا ہے مستقبل ميں پيدا ہو، اس سے بھى اب طلاق واقع نہيں ہوتى، اور خاص كر آپ نے جو يہ بيان كيا ہے كہ آپ كو ياد نہيں رہتا اور بھول جاتے ہيں ہكا بكا رہتے ہيں، اور جب آپ كوئى كام كرنا چاہيں تو آپ اپنے دل ميں بات كرتے ہيں اور بعض اوقات تو الفاظ بھى آہستہ آواز سے آتى ہے.
رہا مسئلہ آپ كى بيوى كو حيض كى حالت ميں طلاق دينے كا تو اس پر علماء كا اجماع ہے كہ ايسا كرنا حرام ہے، آپ كے ليے اس سے توبہ و استغفار كرنا واجب ہے، اور يہ عزم كريں كہ آئندہ ايسا نہيں كرينگے.
اور اگر آپ نے كسى عالم دين سے اس كے متعلق پہلے دريافت كر ليا تھا كہ اس سے طلاق ہوتى ہے يا نہيں ؟
تو آپ اس كے فتوى پر عمل كريں جو اس نے آپ كو فتوى ديا تھا.
واللہ اعلم
.