سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہونے کا مطلب

104926

تاریخ اشاعت : 13-02-2016

مشاہدات : 15990

سوال

"رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے " اس میں برابر ہونے سے کیا مقصود ہے ؟تفصیلی طور پر سمجھائیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بخاری (1782) اور مسلم (1256) میں ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ: " اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک انصاری عورت سے پوچھا: (تمہارے لیے ہمارے ساتھ حج کرنے پر کیا رکاوٹ ہے؟)  اس نے جواب دیا :"ہمارے پاس صرف دو اونٹ ہیں ، ایک پر میرا بیٹا اور اس کا  والد  حج کرنے چلے گئے اور دوسرا ہمارے لئے چھوڑ دیا تاکہ  ہم اس سے کھیتی کو سیراب کرنے کا کام لیں" آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (جب ماہ رمضان آئے تو اس میں عمرہ کر لینا ،کیونکہ رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے )
اور مسلم کی روایت میں ہے کہ (میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے)

دوم:

حدیث میں مذکور فضیلت کے حاملین کون ہیں ؟ اس میں اہل علم کے تین اقوال ہیں :

1- یہ حدیث اسی عورت کے ساتھ خاص ہے جس سے نبی صلے اللہ علیہ وسلم مخاطب تھے، یہ موقف سعید بن جبیر رحمہ اللہ  تابعی کا ہے اور اسے ابن حجر نے  "فتح الباری" (3/605) میں نقل کیا ہے۔

اس موقف کیلئے ام معقل رضی اللہ عنہا کی حدیث سے بھی دلیل لی جا سکتی ہے کہ انکا کہنا ہے کہ: "(حج حج ہے اور عمرہ عمرہ ہے)  یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمائی تھی ، اب مجھے  معلوم نہیں یہ   میرے لئے خاص تھا -یا کہ تمام لوگوں کے لئے عام ہے -
(اسے ابو داود (1989) نے روایت کیا ہے ، لیکن یہ اضافی الفاظ ضعیف ہیں، البانی رحمہ اللہ نے  "ضعیف ابو داود " میں اسے ضعیف کہا ہے ۔

2- یہ  فضیلت اسے حاصل ہوگی جس نے حج کی نیت کی لیکن حج ادا کرنے سے عاجز ہو گیا، پھر اس کے عوض رمضان میں عمرہ کیا ، چنانچہ حج کی نیت اور عمرے کی ادائیگی  دونوں کاموں کے ملنے سے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تام کرنے کا اجر حاصل ہو گیا ۔

ابن رجب  " لطائف المعارف " صفحہ: (249) میں کہتے ہیں :
"واضح رہے کہ جو شخص نیکی کا کام نہ کر سکے، اس پر اسے حسرت بھی ہو اور اسے کرنے کی تمنا بھی کرے تو وہ نیکی کا کام کرنے والے کے ساتھ اجر میں شریک ہوگا ،۔۔۔  پھر انہوں نے اس کی بہت سی مثالیں ذکر کیں ان میں ایک یہ ہے :کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج نہ کر سکی ،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو اس عورت نے آپ سے سوال کیا کہ کون سا عمل اس حج کا متبادل بن سکتا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(رمضان میں عمرہ کر لو ؛ کیونکہ رمضان میں عمرہ  حج کے برابر ہے  -دوسری روایت میں ہے - میرے ساتھ حج کے برابر ہے )"ا نتہی
یہی بات ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں کہی ہے ، دیکھیں: تفسیر ابن کثیر :( 1/531)

اس قول کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے  "مجموع الفتاوی" (26/293- 294) میں اسے ایک احتمال کے طور پر ذکر کیا ہے۔

3- یہ قول مذاہب اربعہ کے بعض  علما اور دیگر اہل علم  کا ہے کہ اس حدیث میں مذکور فضیلت  عام ہے اور ہر اس شخص کو یہ حاصل ہو سکتی ہے جو رمضان کے مہینے میں عمرہ کرے ، چنانچہ رمضان میں عمرہ تمام لوگوں کے لئے حج کے برابر ، ۔  چند اشخاص یا مخصوص  احوال کے ساتھ خاص  نہیں ہے ۔
دیکھیں :رد المحتار(2/473) ، مواھب الجلیل (3/29) ، المجموع (7/138) ،المغنی(/91) ،  الموسوعۃ الفقھیہ(2/144)

ان اقوال میں سے آخری قول راجح معلوم ہوتا ہے کہ یہ فضیلت ہر اس شخص کے لئے ہے جو رمضان میں عمرہ کرتا ہے ، اس کے چند دلائل یہ ہیں :

1-  یہ حدیث بہت سے صحابہ سے مروی ہے ،چنانچہ امام ترمذی کہتے ہیں :
"یہ حدیث ابن عباس ،جابر ،ابو ہریرہ ،انس اور وہب بن خنبش سے بھی مروی ہے ،اور ان میں سے اکثر روایات میں سوال کرنے والی عورت کا قصہ موجود نہیں ہے "

2-  ہر زمانے میں صحابہ ،تابعین ،علما اور صالحین کا اس پر عمل رہا ہے چنانچہ وہ اس اجر کو حاصل کرنے کے لئے رمضان میں عمرہ کرنے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے ۔

اور یہ کہنا کہ یہ فضیلت اس شخص کے ساتھ خاص ہے جو کسی رکاوٹ کی وجہ سے حج کرنے سے عاجز آ جائے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس کی نیت سچی ہو اور وہ کام کرنے کے لئے پر عزم ہو اور اس نے اسباب بھی اختیار کر رکھے ہوں پھر بھی وہ کسی سبب کے آڑے آنے سے   عمل نہ کر سکے تو اللہ تعالی اس کی نیت کی وجہ سے ہی اسے اجر سے نواز دیتے ہیں ، آپ اجر کے حصول کے لئے اس فضیلت کو کسی زائد عمل یعنی رمضان میں عمرہ کی ادائیگی کے ساتھ کیسے منسلک کر سکتے ہیں جبکہ اجر کے حصول کے لئے سچی نیت ہی کافی تھی !

سوم:

جہاں تک رمضان میں عمرے کا  حج کے برابر ہو نے کا سوال ہے ؟ اس  کی تفصیل  حسب ذیل ہے ۔

اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ رمضان میں عمرہ کرنا ، فریضۂِ حج کا متبادل نہیں بن سکتا ، یعنی جو رمضان میں عمرہ کر لیتا ہے اس سے واجب حج ساقط نہیں ہوگا جو کہ اللہ تعالی کا حق ہے ۔

چنانچہ حدیث  میں رمضان کے اندر کیے گئے عمرے کو حج کیساتھ اجر و ثواب میں مشابہت  دی گئی ہے، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ رمضان میں عمرہ فرض کا متبادل ہے۔

 لہذا رمضان میں عمرہ اور حج کے ثواب میں برابر ی اور مساوات کا مطلب اجر کی مقدار ہے نہ کہ اجر کی جنس اور قسم ، چنانچہ  اس میں کوئی شک  و شبہ نہیں کہ حج  ،جنس عمل کے اعتبار سے عمرہ سے افضل ہے ۔

چنانچہ جو رمضان میں عمرہ کرتا ہے اسے حج کے اجر کی مقدار کے برابر اجر تو حاصل ہو جائے گا لیکن عمل حج کی کچھ ایسی خوبیاں ،فضائل اور امتیازی چیزیں ہیں جو عمرہ میں نہیں ہیں، جیسا کہ حج میں عرفہ کی دعا ،جمرات  کو کنکریاں مارنا ،اور جانور قربان کرنا وغیرہ  اعمال ہیں ، چنانچہ حج اور رمضان میں ادا کیا ہوا عمرہ دونوں ثواب کی مقدار میں تو برابر ہیں لیکن نوع اور کیفیت میں برابر نہیں ہیں ۔ 

یہی توجیہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کی بیان کی ہے جس میں ہے کہ ایک مرتبہ سورہ اخلاص کی تلاوت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے ، ان کی گفتگو  دیکھنے کے لئے سوال نمبر(10022) کے جواب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے ۔

اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں:
"یہ  حدیث -رمضان میں عمرہ کے حج کے برابر  والی حدیث- ایسے ہی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے "قُلْ هُوَ اللَّہُ أَحَدٌ" کو پڑھا تو اس نے ایک تہائی قرآن پڑھ لیا) "ترمذی" (2/268)

"مسائل الإمام أحمد بن حنبل روایۃ أبی یعقوب الکوسج " (1/ 553) میں ہے کہ:
" میں نے  امام احمد سے پوچھا: "جو کہتا ہے کہ رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے ، کیا یہ ثابت ہے؟ انہوں نے کہا: "کیوں نہیں ، بالکل ثابت ہے "

 اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں  کہ : "یہ بالکل ثابت ہے جیسا کہ امام حمد نے کہا ،اور اس کا مطلب یہ کہ اس کے لئے حج کا اجر لکھا جاتا ہے ،لیکن  وہ حاجی   کے مقام و مرتبہ کو  کبھی نہیں پہنچ سکتا " انتہی

ابن تیمیہ کہتے ہیں:
"یہ تو  معلوم  ہے کہ آپ کے اس فرمان کا مطلب کہ    تیرا رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے مساوی ہے ، اس وجہ سے ہے  کہ وہ آپ کے ساتھ حج کا ارادہ کر چکی تھیں لیکن حج کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا ہو گئی تو آپ نے صحابیہ کو اس چیز کی خبر دی جو حج کے قائم مقام ہو، اسی طرح صحابہ میں سے جس کی یہ حالت تھی وہ بھی اس میں شامل ہوگا، کو ئی بھی عقل مند ایسا نہیں کہتا جیسا کہ بعض جاہلوں کا گمان ہے کہ میقات یا مکہ سے  ہم میں سے کسی کا  عمرہ  کر لینا حج کے برابر ہے ؛ کیونکہ یہ بات تو لازما معلوم ہے کہ حج تام رمضان میں عمرہ سے افضل ہے، اور ہم میں سے اگر کوئی فرض حج کرے تو وہ آپ کے ساتھ حج کے برابر نہیں ہو سکتا ،تو عمرہ اس کے برابر کیسے ہو سکتا ہے !! حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہو رہا ہے کہ ہم میں سے کسی کا رمضان میں میقات سے کیا ہوا عمرہ حج کے برابر ہے" انتہی
" مجموع الفتاوی " (26/ 293- 294)

مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر : (13480) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب