الحمد للہ.
ضعیف احادیث کی ضعیف اور مسترد قرار دینے کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں:
پہلی قسم:
ایسی احادیث جن کے بارے میں یقینی طور پر من گھڑت ہونا اور انکی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت خود ساختہ ہونے کا حکم لگایا جا سکتا ہے، اس کی آگے دو قسمیں ہیں:
1- ایسی روایات جو کہ کذاب اور جھوٹ بولنے میں ملوث راویوں کے ذریعے سے پہنچی ہیں، یا پھر ان روایات کے راوی سخت ضعیف ہیں یا ان کا حافظہ شدید متاثر تھا،یا اس حدیث کے متن میں ایسی بات ہو جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صادر ہونا ممکن نہ ہو۔
2- ایسی روایات جس میں کسی راوی کی غلطی کا یقینی اندازہ لگایا جا سکے، کیونکہ اس نے اپنے سے زیادہ معتبر اور موثوق ایک یا متعدد راویوں کی مخالفت کرتے ہوئے موقوف روایت کو مرفوع ، یا مرسل روایت کو متصل ، یا متن اور سند کہیں بھی اپنی طرف سے اضافہ کر دیا ہو۔
ان دو قسم کی کوئی روایت آپکو محقق اہل علم کی کتابوں میں نہیں ملے گی، اگر ذکر کر بھی دیں تو وہ اصل میں اس روایت کی حقیقت آشکار کرنے کیلئے ہی کرینگے، لہذا اگر کہیں پر اس قسم کی ضعیف روایت کو بطورِ دلیل پیش کیا گیا ہوتو یہ انتہائی نادر ہوتا ہے، جسکی وجہ ان محققین کو لگنے والا وہم یا غلطی ہوتی ہے۔
دوسری قسم:
ایسی روایات جو کہ کسی کمزور راوی سے منقول ہوں یا کسی مجہول راوی سے بیان ہوں جس کے ضعیف ہونے کا احتمال ہو سکتا ہے، یا معمولی انقطاع کی وجہ سے روایت ضعیف ہو، لیکن متن میں ایسی کوئی بات نہ ہو جو کہ شریعت کے ثابت شدہ امور سے متصادم ہوں۔
تو ایسی روایات کو علمائے کرام بالکل مسترد نہیں کرتے، اور ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت یقینی طور پر رد نہیں کرتے، بلکہ اس احتمال کو باقی رکھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی بات صادر ہوئی ہو، کیونکہ ضعیف راوی بھی بسا اوقات بات یاد رکھ سکتا ہے، اور درست انداز میں بیان کر سکتا ہے، بالکل اسی طرح جب سند میں سے کوئی راوی ساقط یا مجہول ہو تو یہ احتمال برقرار رکھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ثقہ ہو ، یہی وجہ ہے کہ اگر انکی ضعیف روایت کیساتھ دیگر قرائن مل جائیں تو اہل علم ان احادیث کو قبول کر لیتے ہیں، مثلاً: ایسے قرائن و شواہد مل جائیں جن سے مجہول راوی کی ثقاہت کا یقین ہونے لگے، یا ضعیف راوی کی یہ روایت صحیح ثابت ہونے کے قرائن مل جائیں کہ بیان کرنے والوں کی تعداد اور اسناد بہت زیادہ ہوں، تو وہ اس روایت کو قبول کر لیتے ہیں۔
چنانچہ ابن الصلاح رحمہ اللہ اپنی کتاب : "مقدمۃ ابن الصلاح" صفحہ: 8 پر کہتے ہیں:
"جب محدثین یہ کہیں کہ : "یہ حدیث صحیح نہیں ہے" تو اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں لیتے
کہ وہ حدیث جھوٹ ہے، کیونکہ اس کے سچ ہونے کا احتمال بھی ہوتا ہے، چنانچہ ان کا
مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس حدیث کی سند مذکورہ شرائط کیساتھ ثابت نہیں ہوسکی" انتہی
اسی طرح سیوطی رحمہ اللہ "تدريب الراوی" (1/75-76) میں کہتے ہیں:
"جب یہ کہا جائے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ
شرائط کے مطابق اس کی سند صحیح نہیں ہے، یہ مطلب نہیں ہوتا کہ یہ حدیث جھوٹ ہے،
کیونکہ کبھی جھوٹا شخص بھی سچ بول سکتا ہے، اور کمزور حافظے والا بھی کبھی کسی بات
کو درست انداز میں پہنچا سکتا ہے" انتہی
چنانچہ اہل علم کو جب کسی مخصوص حدیث میں کمزوری کا احتمال نظر آتا ہو ، اور اس حدیث کے متن میں شریعت کے اصولوں کیساتھ مطابقت بھی نظر آئے تو عام طور پر اس حدیث کو بطور اضافی شواہد کے ذکر کر دیتے ہیں، انہیں بنیادی دلیل نہیں بناتے، تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ شرعی احکام صرف صحیح حدیث سے ہی اخذ کیے جا سکتے ہیں، تاہم وہ لوگ ضعیف کی اس قسم کی احادیث کو واقعات، تاریخ، رقت قلبی، آداب و اخلاق، اور فضائل اعمال وغیرہ میں بیان کر دیتے ہیں۔
لہذا علمائے کرام اپنی کتابوں میں ضعیف احادیث کو کیوں بیان کرتے ہیں، ان کے اسباب درج ذیل نکات میں تلخیص کیساتھ بیان کیے جا سکتے ہیں:
1- دیگر شواہد، اسانید اور متابعات سے ان روایات کے سچے اور صحیح ہونے کا احتمال ہوتا ہے، چنانچہ ان ضعیف احادیث کے معنی و مفہوم کو بطور اضافی شواہد کے لے لیتے ہیں، بشرطیکہ مجموعی طور پر انکا معنی و مفہوم صحیح بنتا ہو۔
2- جن اہل علم نے اپنی حدیث کی تصنیفات میں ان روایات کو بیان کر کے انہیں مسترد یا جھوٹا قرار نہیں دیا ان کے نقش قدم پر چلے ہوئے احادیث بیان کر دیتے ہیں، اور صحیح و ضعیف کی ذمہ داری انہی کے سپرد کر دیتے ہیں۔
3- اکثر اوقات اس قسم کی روایات کو بیان کرتے ہوئے ایسا اشارہ بھی کر دیتے ہیں کہ جس سے روایت ضعیف ہونے کا علم ہو، مثلاً: صراحت کیساتھ ضعیف کہہ دیتے ہیں، یا مجہول کے صیغہ سے نقل کرتے ہیں، یعنی: بیان کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے، یا حکایت کی جاتی ہے۔۔۔ وغیرہ۔
تیسری قسم:
ایسی روایات جن کے صحیح یا ضعیف ہونے کے متعلق اختلاف ہے، یعنی سابقہ دونوں قسموں اور حدیث کی قسم حسن و مقبول کے درمیان متردد روایات، چنانچہ ایسی روایت کو اہل علم اس اختلاف کو معتبر سمجھتے ہوئے ، یا ان کے نزدیک یہ حدیث قابل قبول ہوتی ہے، یا پھر کم از کم اس لیے بیان کرتے ہیں کہ ان احادیث کو یقینی طور پر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم ان کے اس عمل میں بھی غلطی کا شبہ موجود ہے، کیونکہ علمائے کرام کو وسیع علم اور وسیع مطالعہ کے باوجود معصوم عن الخطا نہیں کہا جا سکتا ہے، چنانچہ ایسا ممکن ہے کہ وہ حقیقت میں کسی ضعیف حدیث کو صحیح سمجھ لیں اور اسے بیان کر دیں، کیونکہ اگر کتب احادیث مصنفات، سنن ، اور جامع کے مصنفین سے اس وقت غلطی ہو سکتی ہے تو ان کے بعد علمائے کرام سے غلطی کا امکان مزید زیادہ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "النكت على ابن الصلاح" (1/447) میں کہتے ہیں:
"فقہی ابواب کی ترتیب پر تصانیف کرنے والے اہل علم نے اپنی کتب میں ضعیف روایات
بیان کی ہیں، بلکہ باطل احادیث بھی موجود ہیں، یا تو انہیں ان کے ضعیف ہونے کا علم
نہیں تھا، یا پھر احادیث کی چھان بین کرنے میں مہارت نہیں تھی" انتہی
واللہ اعلم.