سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

دوران حمل تين بار طلاق دى اور رجوع كر ليا

106285

تاریخ اشاعت : 03-02-2010

مشاہدات : 18213

سوال

مجھے ميرے خاوند نے طلاق دى تو ابھى ميرے حمل كا پہلا ماہ تھا، پھر اس نے طلاق كے ايك ماہ بعد مجھ سے رجوع كر ليا، ايك بار پھر ہمارے درميان كوئى مشكل پيدا ہوئى تو خاوند نے مجھے دوبارہ طلاق دے دى اور ميرا حمل چھٹے ماہ ميں تھا اس كے بعد مجھ سے رجوع كر ليا، پھر حمل كے آٹھويں ماہ دوبارہ طلاق دے دى اس حالت ميں دى گئى طلاق كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حمل كى حالت ميں دى گئى صحيح ہے اور واقع ہو جاتى ہے، اس ليے جب خاوند اپنى بيوى كو حمل كى حالت ميں طلاق دے تو اس كى عدت وضع حمل ہے، خاوند كو حق حاصل ہے كہ وضع حمل سے قبل رجوع كر لے، اور اگر رجوع كرنے كے بعد وہ دوبارہ طلاق دے دے تو طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر وہ اس سے پھر رجوع كر لے اور پھر طلاق دے دے تو طلاق واقع ہو جائيگى، اور اس طرح وہ اپنے خاوند سے بائن ہو جائيگى اور اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك وہ كسى دوسرے مرد سے نكاح رغبت نہ كر لے.

لوگوں ميں جو يہ معروف ہے كہ حاملہ عورت كى طلاق واقع نہيں ہوتى يہ بات صحيح نہيں، اور نہ ہى اس كى كوئى اصل اور دليل ہے.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ جب آدمى اپنى بيوى كو ايك يا دو طلاق حمل كى حالت ميں دے تو وضع حمل سے قبل اسے رجوع كرنے كا زيادہ حق حاصل ہے اور يہ ہى اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور ان عورتوں كے ليے حلال نہيں كہ اللہ تعالى نے ان كے رحم ميں جو پيدا كر ركھا ہے وہ اسے چھپائيں، اگر وہ اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتى ہيں البقرۃ ( 228 ).

اسے ابن جرير طبرى نے تفسير طبرى ( 2 / 448 ) اور امام بيھقى نے سنن بيھقى ( 7 / 367 ) ميں روايت كيا ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا حاملہ عورت كو طلاق دينا جائز ہے يا نہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" حاملہ عورت كو طلاق دينے ميں كوئى حرج نہيں، جب عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اپنى بيوى كو حيض كى حالت ميں طلاق دے دى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:

" اس سے رجوع كرو پھر اسے ركھو حتى كہ وہ پاك ہو جائے پھر اسے حيض آئے پھر وہ پاك ہو، پھر اگر چاہو تو اسے طہر كى حالت ميں طلاق دو قبل اس كے كہ اس سے جماع كرو يا پھر وہ حاملہ ہو " انتہى

ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" بہت عجيب بات ہے كہ كچھ لوگ يہ خيال كرتے ہيں كہ حمل ميں طلاق نہيں ہوتى، ميں نہيں جانتا كہ ان كےپاس يہ چيز كہاں سے آئى، حمل ميں طلاق واقع ہو جاتى ہے، حتى كہ اگر اس نے حمل كى حالت ميں بيوى سے جماع بھى كيا ہو اور غسل جنابت كرنے سے قبل بيوى كو طلاق دے دے تو طلاق واقع ہو جائيگى.

اس ليے حاملہ عورت كو حمل كى حالت ميں دى گئى طلاق تو يقينى واقع ہو جاتى ہے " انتہى

ديكھيں: اللقاء الشھرى ( 3 / 495 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب