الحمد للہ.
آپ جہاں رہتے ہيں وہاں كے باشندوں كے ساتھ ہى رہيں جب وہ روزہ ركھيں آپ بھى ركھيں، اور اگر وہ عيد منائيں تو آپ بھى عيد كر ليں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" روزہ اس دن ہے جس دن تم روزہ ركھو، اور عيد الفطر اس دن ہے جس دن تم عيد الفطر مناؤ، اور عيد الاضحى اس دن ہے جس دن تم قربانى كرو "
اور اس ليے كہ اختلاف شر و برائى ہے، اس ليے آپ كو اپنے ملك كے باشندوں كے ساتھ ہى رہنا ہوگا، جب آپ كے ملك جہاں آپ رہائش پذير ہيں وہاں كے مسلمان روزہ ركھيں تو آپ بھى روزہ ركھ ليں، اور جب آپ كے ملك ميں عيد ہو تو آپ بھى عيد منائيں.
رہا اختلاف كا سبب تو اس وجہ سے ہے كہ كچھ كو چاند نظر آ جاتا ہے، اور كچھ كو چاند نظر نہيں آتا، پھر جنہوں نے چاند ديكھا ہوتا ہے دوسرے لوگ ان كو ثقہ سمجھتے ہيں اور ان پر مطمئن ہوتے اور ان كى رؤيت پر عمل كرتے ہيں، اور كچھ ان كو ثقہ نہيں سمجھتے اور ان كى رؤيت پر عمل نہيں كرتے تو اس طرح يہ اختلاف پيدا ہو جاتا ہے.
اور بعض اوقات آپ يہ بھى ديكھتے ہيں كہ حكومت چاند ديكھ ليتى ہے اور روزہ ركھنے يا عيد منانے كا حكم دے ديتى ہے اور دوسرى حكومت اس رؤيت پر مطمئن نہيں ہوتى اور وہ اس حكومت كو كئى ايك اسباب كى بنا پر ثقہ نہيں سمجھتى چاہے وہ اسباب سياسى ہوں يا دوسرے.
اس ليے مسلمانوں پر واجب ہے كہ جب چاند ديكھيں تو سب مسلمان روزہ ركھيں، اور جب عيد كا چاند نظر آ جائے تو سب عيد منائيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
" جب تم چاند ديكھ لو تو روزہ ركھو، اور جب تم چاند ديكھو تو عيد كر لو، اور اگر تم پر آسمان ابرآلود ہو جائے اور چاند نظر نہ آئے تو پھر تيس يوم كى تعداد پورى كر لو "
چنانچہ جب رؤيت صحيح ہونے پر سب مطمئن ہوں كہ يہ حقيقيتا ثابت ہے تو اس رؤيت كے ساتھ روزہ ركھنا اور اس رؤيت كے ساتھ عيد كرنا واجب ہے، ليكن جب لوگ آپس ميں فى الواقع اختلاف كريں اور ايك دوسرے كو ثقہ نہ سمجھيں تو آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے ملك كے مسلمانوں كے ساتھ روزہ ركھيں، اور ان كے ساتھ ہى عيد منائيں، تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان پر عمل ہو:
" روزہ اس دن ہے جب تم روزہ ركھو، اور عيد الفطر اس دن ہے جس دن تم عيد الفطر كرو، اور عيد الاضحى اس دن ہے جس دن تم قربانى كرو "
اور يہ ثابت ہے كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كو جب كريب نے يہ بتايا كہ اہل شام نے تو جمعہ كے دن روزہ ركھا تھا توابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
ہم نے تو چاند ہفتہ كے دن ديكھا ہے، اور ہم چاند ديكھنے تك روزہ ركھتے رہينگے، يا پھر تيس روزے پورے كر ليں، اور انہوں نے اہل شام كى رؤيت پر عمل نہيں كيا كيونكہ شام مدينہ سے دور ہے، اور دونوں علاقوں كے چاند كے مطلع ميں اختلاف پايا جاتا ہے.
اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے يہ مسئلہ اجتھادى خيال كيا لہذا آپ كے ليے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما ميں اسوہ اور نمونہ ہے، اور جو علماء ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كے قول كے قائل ہيں كہ اپنے ملك كے لوگوں كے ساتھ ہى روزہ ركھو اور ان كے ساتھ ہى عيد مناؤ اس ميں آپ كے ليے اسوہ ہے "
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے. انتہى.
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.