الحمد للہ.
اول:
تعزیت: مصیبت زدہ شخص کو تسلی دینے اور اس کی مشکل وقت میں ہمت باندھنے کا نام ہے۔
مصیبت زدہ: اس شخص کو کہتے ہیں جسے کسی بھی قسم کی مصیبت پہنچی ہو، مثلاً: کسی کا کوئی دل و جان سے عزیز شخص فوت ہو جائے، یا قریبی رشتہ دار وفات پا جائے، دولت ضائع ہو جائے۔ چنانچہ کسی کے اہل خانہ، دوست احباب اور پڑوسی وغیرہ کوئی بھی فوت ہو جائے تو انہیں تسلی دینا اور ان کی ڈھارس باندھنا تعزیت کہلاتا ہے۔
تعزیت ہر ایسی چیز سے ممکن ہے جس کے ذریعے مصیبت زدہ کو تسلی ملے، غم کی کیفیت ختم ہو، تعزیت کا سب سے بہترین طریقہ وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آپ کی کسی صاحبزادی کا پیغام پہنچا کہ ان کا بیٹا قریب المرگ ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم واپس جاؤ، اور بیٹی کو بتلا دو کہ: أَنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ ، وَلَهُ مَا أَعْطَى ، وَكُلَّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُّسَمًى ، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ یعنی: اللہ جس چیز کو واپس لے لے وہ بھی اسی کا ہے اور جو عطا کر دے وہ بھی اسی کا ہے، اور ہر چیز اس کے پاس ایک وقت مقررہ تک ہے، اس لیے تم صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو) بخاری: (1204)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے تعزیت کے طریقے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"تعزیت کے لیے کہے جانے والے الفاظ میں سے بہترین الفاظ وہ ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیٹی کو اس وقت فرمائے تھے جب ان کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بلاوے کا پیغام موصول ہوا، آپ کی اس صاحبزادی کا بیٹا یا بیٹی قریب المرگ تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیغام لے کر آنے والے سے فرمایا تھا: فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ ، فَإِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ ، وَلَهُ مَا أَعْطَى ، وَكُلَّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُّسَمًى یعنی: اسے حکم دو کہ صبر کرے اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھے؛ کیونکہ جو کچھ اللہ لے لے وہ اسی کا ہے، اور جو باقی رہ جائے وہ بھی اسی کا ہے، اور ہر چیز کا اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے ۔
کچھ لوگ کسی کی تعزیت کرتے ہوئے دیگر الفاظ بھی کہتے ہیں، مثلاً: { عَظَّمَ اللهُ أَجْرَكَ ، وَأَحْسَنَ اللهُ عَزَاءَكَ ، وَغَفَرَ اللهُ لِمَيِّتِكَ} یعنی: اللہ تعالی آپ کا اجر عظیم بنائے، اور آپ کو بہترین طریقے سے تسلی دے، اور میت کو بخش دے۔ یہ الفاظ تو اچھے ہیں لیکن جو الفاظ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سکھائے ہیں وہ سب سے بہتر ور اچھے ہیں۔ " ختم شد
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (17/339)
تعزیت تدفین سے قبل اور بعد دونوں طرح جائز ہے، چنانچہ اگر انسان میت کے وارثوں سے تدفین، یا غسل یا نماز جنازہ سے پہلے بھی تعزیت کر لے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اس سے بھی اصل مقصد حاصل ہو جاتا ہے، اسی طرح تدفین کے بعد بھی تعزیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے تعزیت کے وقت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:
"اگر وفات پر تعزیت کرنی ہو تو میت کی وفات سے تعزیت کا وقت شروع ہو جاتا ہے، اور اگر کسی اور مصیبت پر تسلی دینی ہو تو اس مصیبت کے آتے ہی تعزیت کے وقت کا آغاز ہو جاتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے جب تک مصیبت زدہ شخص اس مصیبت کو بھول جائے یا اس کے دل سے ختم ہو جائے۔ ویسے بھی تعزیت کا مقصد مبارکبادی یا خوشی نہیں ہوتا، بلکہ یہاں مصیبت زدہ کی ڈھارس باندھ کر اسے مصیبت پر صبر کر کے ثواب لینے کی امید دلانا ہوتا ہے۔" ختم شد
مجموع فتاوی ابن عثیمین: (17/240)
واللہ اعلم