سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ايك بيوى كى بارى كى رات يا دن دوسرى بيوى كے پاس جانا

106513

تاریخ اشاعت : 10-03-2010

مشاہدات : 7823

سوال

كيا دوسرى بيوى كى بارى كے دن خاوند پہلى بيوى كے حالات كا اطمنان كرنے جا سكتا ہے كيونكہ وہ مريض ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس بيوى كى بارى ہو اس كے گھر سے نكل كر كسى دوسرى بيوى كے گھر جانے ميں تفصيل پائى جاتى ہے:

ا ـ اگر دن كے وقت نكلا جائے اور تقسيم رات كى ہو تو پھر ضرورت كے وقت ايسا كرنا جائز ہے، مثلا وہاں سامان وغيرہ دينا، اور اسے اخراجات دينا اور اس كى خبر گيرى كرنا اور تيمارى دارى كرناوغيرہ كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں بيان ہوا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تقسيم ميں ہمارے پاس ٹھرنے ميں كسى ايك كو بھى فضيلت نہ ديتے تھے، اور روزانہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہم سب كے پاس آتے اور ہر ايك كے قريب ہوتے ليكن اس سے جماع نہ كرتے، حتى كہ جس عورت كى بارى ہوتى اس كے گھر پہنچ جاتے.

جب سودہ بنت زمعہ رضى اللہ تعالى كى عمر زيادہ ہو گئى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں چھوڑنا چاہا تو انہوں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى بارى عائشہ كے ليے ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے يہ قبول كر ليا "

سنن ابو داود جديث نمبر( 2135 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن صحيح قرار ديا ہے.

اور خاوند كے ليے جائز ہے كہ وہ جب كسى دوسرى بيوى كے پاس جائے تو جماع كے بغير استمتاع كر سكتا ہے؛ كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميرى بارى كے علاوہ دوسرے دنوں ميں ميرے پاس آتے اور مجھ سے جماع كے علاوہ باقى سب كچھ حاصل كرتے "

علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 2023 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

خاوند كو چاہيے كہ وہ ايك بيوى كى بارى والے دن دوسرى بيوى كے پاس جائے تو زيادہ دير مت ٹھرے، اوراگر وہ اس كے پاس زيادہ دير ٹھرے گا تو بارى كى قضا كرنا ہو گى.

ب ـ ليكن رات كے وقت كسى دوسرى بيوى كے پاس جانا جائز نہيں صرف ضرورت كے وقت ايسا ہو سكتا ہے، مثلا بيمار ہو يا پھر درد كى شدت اور جلنے اور ڈاكے وغيرہ كا ڈر ہو تو جائے اور جلد واپس آ جائے ليكن اگر وہ زيادہ دير رہے تو پھر بارى كى قضا كرنا ہو گى.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بيوى كى بارى كے وقت ميں اس كى سوكن كے پاس جانے كا مسئلہ: اگر تو رات كے وقت ہو تو ايسا كرنا جائز نہيں ليكن ضرورت كى حالت ميں جائز ہو گا مثلا بيوى موت و حيات كى كشمكش ميں ہو اور خاوند اس كے پاس جانا چاہتا ہو، يا پھر بيوى نے اس كى وصيت كى ہو، يا اس كے بغير كوئى چارہ نہ ہو اگر وہ ايسا كرے اور وہاں دير دير ٹھرے بغير واپس آ جائے تو قضا نہيں، ليكن اگر وہ وہيں رہے حتى كہ وہ تندرست ہو جائے تو دوسرى بيوى كى بارى ميں اتنى دير ہى رات كو اس بيوى كے پاس رہے گا.

اور اگر وہ بغير كسى ضرورت كے جاتا ہے تو گنہگار ہو گا اور قضا ميں حكم يہ ہے جيسا كہ اگر ضرورت كى بنا پر جاتا ہے تو تھوڑے سے وقت كى قضا كا كوئى فائدہ نہيں.

ليكن اگر كسى دوسرى بيوى كى بارى ميں دن كے وقت اور بيوى كے پاس جائے تو ضرورت كى بنا پر جائز ہے، مثلا اخراجات دينے يا بيمارپرسى كرنے يا كسى كام كے متعلق دريافت كرنے، يا پھر زيادہ دير ہو گئى ہو تو ملنے جا سكتا ہے.

اس كى دليل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى يہ حديث ہے وہ بيان كرتى ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميرى بارى كے علاوہ دن ميرے پاس آيا كرتے تھے اور جماع كے علاوہ سب كچھ حاصل كرتے "

اور جب وہ بارى كے علاوہ دوسرى بارى كے پاس جائے تو اس سے جماع مت كرے، اور نہ ہى اس كے پاس زيادہ دير رہے كيونكہ اس سے رہنا حاصل ہوتا ہے اور وہ اس كى مستحق نہيں كيونكہ بارى كسى اور كى ہے، اور اگر وہ زيادہ دير رہے تو قضاء كريگا " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 234 ) اختصار كے ساتھ.

اس بنا پر اگر خاوند بارى كے علاوہ كسى اور بيوى كے گھر دن كے وقت جائے جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے كہ اس بيوى پر مطمئن ہونے كے ليے اور حالات معلوم كرنے كے ليے تو اس ميں خاوند پر كوئى گناہ نہيں، ليكن اسے وہ بغير ضرورت زيادہ نہيں ٹھرنا چاہيے.

اور اگر رات كے وقت جائے تو بغير ضرورت ايسا كرنا جائز نہيں مثلا دوسرى بيوى زيادہ شديد مريض ہو يا پھر جس كى بارى ہے اس سے اجازت لے كر جائے، اور اگر وہ اس كے پاس زيادہ دير رہے تو اسے چاہيے كہ اس كى بارى ميں بھى رات كو اتنا وقت دوسرى بيوى كے پاس بسر كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب