سوموار 11 ربیع الثانی 1446 - 14 اکتوبر 2024
اردو

جو شخص جماع کا کفارہ ادا نہیں کرسکتا، تو کیا کفارہ اس سے ساقط ہوجائے گا؟

106533

تاریخ اشاعت : 11-07-2014

مشاہدات : 8710

سوال

پہلا سوال: میرے خاوند نے میرے ساتھ رمضان میں دن کے وقت ہمبستری کی، ابتدا میں میں نے انکار کیا لیکن پھر میں بھی اسکے سامنے ڈھیر ہوگئی، تو ہم پر کیا حکم لاگو ہوتا ہے؟ یاد رہے کہ ہم غلام آزاد نہیں کرسکتے، اور نہ ہی دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہیں، کیونکہ ہمیں روزے کی وجہ سے کافی مشقت کا اندیشہ ہے، اور ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانے کیلئے کتنے کلو چاول دینے ہونگے؟
دوسرا سوال: میں ملازمت نہیں کرتی ، اور نہ ہی میرا کوئی ذریعہ آمدن ہے، تو میں مساکین کو کھانا کیسے کھلاؤں گی؟ کیا کھانے کے پیسے مجھے ہی ادا کرنے ہونگے یا میرا خاوند بھی میری طرف سے ادا کرسکتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

رمضان میں دن کے وقت جماع کرنا بہت ہی سنگین جرم ہے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، ویب سائٹ پر اسکی حرمت کے بارے میں پہلے گزر چکا ہے کہ اس سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے، جیسے کہ سوال نمبر: (38023) کے جواب میں موجود ہے۔

دوم:

رمضان میں دن کے وقت جماع کرنے والے پر ایک مؤمن غلام آزاد کرنا واجب ہوتا ہے، اور اگر اسکی طاقت نہ ہوتو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہوتے ہیں، اور اسکی بھی اگر سکت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلایا جائے گا، یہ کفارہ اسی ترتیب سے ادا کرنا ہوگا، ایک اختیار سے دوسرے اختیار میں منتقل ہونے کیلئے پہلے اختیار کا نا ممکن ہونا ضروری ہے؛ جیسے کہ بخاری (1936) اور مسلم (1111) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں تباہ ہوگیا! آپ نے فرمایا: (تمہیں کس نے تباہ کردیا؟) اس نے کہا: میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا، آپ نے فرمایا: (تمہارا کوئی غلام ہے؟) اس نے جواب دیا: نہیں ، آپ نے فرمایا: (کیا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہو؟) اس نے جواب دیا : نہیں، آپ نے فرمایا: (تو کیا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانے کی سکت رکھتے ہو؟)اس نے کہا: نہیں ، ۔۔۔۔۔ الحدیث

جماع کرنے کی صورت میں مرد و عورت دونوں پر کفارہ لازم ہوتا ہے۔

چنانچہ اگر مرد یا عورت کفارہ ادا نہیں کرسکتی تو کفارہ ساقط ہوجائے گا؛ اسکی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے: ترجمہ:(اللہ سے اتنا ڈرو جتنی تم میں طاقت ہے) سورہ التغابن/16

ویسے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آدمی کو کفارے کا حکم دیا ، اور آدمی نے بتلایا کہ وہ کفارہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ کفارہ تمہارے ذمہ باقی رہے گا، ایسے ہی [یہ بھی دلیل ہے کہ ]واجب کام استطاعت سے باہر ہوتو ساقط ہوجاتا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (6/417) میں کہتے ہیں:

"کفارہ کتاب وسنت کے دائل سے ساقط ہوجائے گا، قرآن سے دلیل یہ ہے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: (اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں بناتا) الطلاق/ 7، اور اس آدمی کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، لہذا اس شخص کو اسی چیز کا مکلف بنایا جائے گا جو اللہ تعالی نے اسے عنائت کی ہے۔

اسی طرح فرمان باری تعالی ہے: (جس قدر تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرو) التغابن/16،

اس موقف کی تیسری دلیل ایک شرعی قاعدے کا "عموم"ہے وہ قاعدہ یہ ہے کہ "واجب ادا کرنے کی طاقت نہ ہونے کی صورت میں واجب ساقط ہوجاتا ہے" جماع کرنے والا یہ آدمی غلام آزاد، روزے، کھانا کھلانے کسی بھی کام کی طاقت نہیں رکھتا تو ہم کہیں گے: آپ پر کچھ بھی واجب نہیں ہے، آپ بری الذمہ ہوچکے ہو۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی نے اسے مستقبل میں مالی استطاعت دے دی تو کیا اب کفارہ دے گا یا نہیں؟

تو اسکا جواب یہ ہے کہ: کفارہ دینا اس پر واجب نہیں ہے، کیونکہ کفارہ ایک بار ساقط ہوگیا ہے، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک فقیر آدمی کو اللہ تعالی نے غنی بنایا تو اب وہ اپنے سابقہ غربت والے سالوں کی زکاۃ ادا نہیں کریگا۔

احادیث سے اس موقف کی دلیل یہ ہے کہ : آدمی نے جب یہ کہا کہ: میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی طاقت نہیں رکھتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: "جب طاقت ہو تو اس وقت کھلا دینا" بلکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کا سامان ملا تو اسے کھلانے کا حکم دیا، آپ نے فرمایا: (یہ لے لو ، اور صدقہ کردو) اس نے کہا: اللہ کے رسول! اپنے سے بھی غریب شخص پر صدقہ کروں؟۔۔۔ آپ نے فرمایا: (اپنے گھر والوں کو ہی کھلا دو) اور آپ نے یہ نہیں فرمایا: "کفارہ ابھی تک تمہارے ذمہ باقی ہے" تو اس سے معلوم ہوا کہ کفارہ طاقت نہ ہونے کی وجہ سے ساقط ہوجائے گا" کچھ تبدیلی کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا

نوٹ:

آپ نے کہا:

" اور نہ ہی دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہیں، کیونکہ ہمیں روزے کی وجہ سے کافی مشقت کا اندیشہ ہے " تو محض اندیشے کو روزے چھوڑنے کیلئے عذر نہیں بنایا جاسکتا، بلکہ لازمی طور پر حقیقت میں روزوں کی استطاعت نہ ہونا ضروری ہے۔

مزید فائدے کیلئے آپ سوال نمبر: (12329) اور (1672) اور (93109) کا بھی مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب