سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كريسنٹ نامى روٹى كھانا

107381

تاریخ اشاعت : 01-01-2009

مشاہدات : 6683

سوال

كيا كريسنٹ " croissant " نامى ہلال كى شكل ميں روٹى كھانى جائز ہے، اس كا قصہ كچھ اس طرح ہے كہ يہ روٹى ايك عيسائى نانبائى نے تيار كى تھى، جو عثمانى دور حكومت كے شكست كى نشانى كے طور پر بطور جشن پكائى جاتى ہے.
ميں نے يہ قصہ انٹرنيٹ پر الموسوعۃ المجانيہ ميں تلاش كيا تو كچھ اس طرح كے قصے ہى پائے، ليكن بعض لوگ كہتے ہيں كہ يہ قصہ صحيح نہيں، ميرے خيال كے مطابق يہ قصہ تو طلبا كى كتابوں ميں بھى مذكور ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

الكرسون يا الكروسان يہ ايك قسم كى معروف روٹى ہے، جسے انگلش ميں ( croissant ) كہتے ہيں، اور فرنچ ميں بھى تقريبا اسى طرح كا نام ہے، اور يہ روٹى تقريبا ہلال كى شكل ميں بنائى جاتى ہے جس ميں كچھ اور حلقے بھى ہوتے ہيں.

دوم:

بعض عربى اور اجنبى مصدر بيان كرتے ہيں كہ يہ روٹى ہلال كى شكل ـ مملكت عثمانيہ كا نشان ـ ميں بنائى گئى تھى جو كہ وينا معركہ ميں پولينڈ كے لشكر كے ہاتھوں عثمانيوں كى شكست كى خوشى اور جشن ميں بنائى گئى، اس شكست با باعث ايك نانبائى بنا تھا، جب اس نانبائى نے مسلمان فوجيوں كو قلع بند شہر تك پہنچنے كے ليے خندق كھودنے كى آواز سنى تو اس نے بادشاہ كو خبر كر دى تو اس نے فورى طور پر مسلمانوں كے خلاف چال چلى جس كى بنا پر مسلمانوں كو 1683 ميلادى ميں شكست سے دوچار ہونا پڑا.

اور بعض مصادر يہ بيان كرتے ہيں كہ اس شكل كى روٹى بنانا عبد الرحمن الغافقى كى قيادت ميں معركہ بلاط شھداء ميں فرانسيوں كے ہاتھوں ( 732م ) ميں شكست كا جشن منانے كو بيان كرتى ہے.

اور بعض يہ بيان كرتے ہيں كہ كروسون يا كريسنٹ روٹى كچھ يورپى ممالك ميں طلباء كے منہج ميں موجود ہے ہو سكتا ہے آج لوگوں كا اس قصہ كو تلاش كرنے كا يہى سبب اور باعث ہو.

سوم:

رہا اس روٹى كو كھانے كا شرعى حكم تو ہمارے خيال ميں ان شاء اسے كھانے ميں كوئى حرج نہيں، اصل ميں اپنے مواد كے اعتبار سے تو يہ حلال ہے، ليكن اگر اس ميں كوئى حرام چيز ڈالى جائے يا آٹے كو شراب ميں گوندھا جائے تو پھر حرام ہو گى.

ليكن اس روٹى كو بنانے كے سبب اور مناسبت كے بيان كردہ قصے كى بنا پر اس كے حرام ہونے كى ہم تو درج ذيل امور كى بنا پر كوئى وجہ نہيں سمجھتے:

1 - يہ قصہ ايك خود ساختہ ہے اس كے يقين كى كوئى راہ نہيں، مصادر نے اس قصہ كو بيان كيا ہے جس كا معنى فى الواقع يقينى طور پر وقوع نہيں.

2 - پھر قصے كا پرانا اور قديم ہونا اس كے نفسياتى آثار كے قديم ہونے اور اپنے اندر چھپے ہوئے غم كو چھپانے كا كفيل ہے، اور شريعت تو واقعيت اور محسوس پر بنا كرتى ہے نہ كہ وہم و گمان يا مطموس چيز پر.

4 - اس سب كے باوجود ہلال كوئى اسلام كا شعار اور علامت نہيں، بلكہ يہ تو عثمانى دور حكومت كا شعار اور علامت ہے، اور دين كى طرف كسى شعار كى نسبت كرنے اور كسى شعار كو اسلامى حكومت كى طرف منسوب كرنے ميں فرق ہے مثلا اموى دور حكومت يا عباسى دور حكومت وغيرہ تو دين كى طرف شعار كى نسبت كے ليے دليل اور نص كى ضرورت ہوتى ہے.

اس ليے اس پر دينى پاكبازى كو دائرہ كو لٹكانا اور لمبا نہيں كرنا چاہيے، اس كا تفصيلى بيان ہمارى اسى ويب سائٹ كے سوال نمبر ( 1528 ) اور ( 79141 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب