سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

مختلف دماغى امراض كے شكار شخص كے ليے روزے ركھنے كا حكم

107885

تاریخ اشاعت : 04-08-2012

مشاہدات : 3672

سوال

اللہ ہميں اور آپ كو عافيت سے نوازے ميرے سسر دماغى مريض ہيں، اور مكمل طور پر مفلوج ہيں حركت نہيں كر سكتے، اتنا ہے كہ پانى كا گلاس بعض اوقات كسى كى مدد سے اٹھا تو ليتے ہيں اور اگر ہم ان سے واپس لينا بھول جائيں تو وہ پانى پينے كے بعد بھى گلاس نہيں ركھتے جب تك كہ ہم انہيں يہ باور نہ كرائيں كہ انہوں نے پانى پى ليا ہے.
ان كى ياداشت تقريبا ختم ہو چكى ہے، ڈاكٹر حضرات اس پر متفق ہيں كہ اب تو شفايابى اللہ ہى دےگا، چھ برس سے وہ اس حالت ميں ہيں اور دن بدن حالت خراب ہوتى جا رہى ہے، روزانہ انہيں دوائى اور ورزش وغيرہ كا علاج كرانا پڑتا ہے جس كى بنا پر ماہانہ ہزاروں خرچ كرنا پڑتے ہيں.
وہ نماز بھى نہيں ادا كرتے، اور ليٹرين ميں بھى انہيں اٹھا كر لے جانا پڑتا ہے، اور تقريبا ايك برس سے پيشاب اور پاخانہ پر بھى كنٹرول نہيں رہا، ہم نے بہت كوشش كى ہے كہ كسى طريقہ سے انہيں تعليم ديں كہ وہ اشارہ كے ساتھ ہى ہميں پيشاب اور پاخانہ كے بارہ ميں بتا ديا كريں.
بات چيت نہيں كرتے اور صرف ہميں چہروں سے پہچانتے ہيں اور غم والا قصہ سن كر متاثر ہو جاتے ہيں، ہم نے اشارہ سے بھى انہيں نماز ادا كرانے كى كوشش كى ليكن كوئى فائدہ نہيں، مختصر يہ كہ كيا ان پر نماز اور خاص كر روزے كا كفارہ ہے يا نہيں، يا كہ وہ پاگل اور مجنون كے حكم ميں آتے ہيں جس سے نماز اور روزہ ساقط ہو جائيگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس شخص كى ياداشت ختم ہو جائے اور عقل ميں تبديلى آ جائے اور وہ ہوش و حواس كھو بيٹھے تو اس سے نماز روزہ ساقط ہو جائيگا، اور اس پر كوئى كفارہ نہيں، كيونكہ مكلف ہونے كے ليے عقل ہونا شرط ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تين قسم كے اشخاص سے قلم اٹھا ليا گيا ہے: سوئے ہوئے شخص سے حتى كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بچے سے حتى كہ وہ بالغ ہو جائے، اور پاگل و مجنون شخص سے حتى كہ وہ عقلمند ہو جائے "

ابو داود حديث نمبر ( 4403 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1423 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3432 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2041 ) ابو داود رحمہ اللہ كہتے ہيں: ابن جريج نے قاسم بن يزيد بن على رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بيان كرتے ہيں اور اس حديث ميں انہوں نے " الخرف " كے الفاظ كا اضافہ كيا ہے، علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

صاحب عون المعبود كہتے ہيں:

" الخرف " خرف سے ہے جس كا معنى بوڑھے ہوجانے كى بنا پر عقل خراب ہونا ہے.

سبكى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

يہ متقاضى ہے كہ تين اشخاص سے يہ زائد ہے، اور صحيح بھى يہى ہے، اس سے وہ بوڑھا شخص مراد ہے جس كى بڑھاپے كى بنا پر عقل زائل ہوگئى ہو، كيونكہ بہت زيادہ بوڑے شخص كى عقل ميں اختلاط پيدا ہو جاتا ہے جس كى بنا پر وہ تميز نہيں كرسكتا، اور يہ چيز اسے اہل تكليف يعنى مكلف ہونے سے خارج كر ديتى ہے، اور اسے جنون كا نام نہيں ديا جائيگا.

اور پھر اس حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ نہيں فرمايا كہ: حتى كہ وہ عقلمند ہو جائے، كيونكہ غالب طور پر موت تك اس سے چھٹكارا حاصل نہيں ہوتا، اور اگر بعض اوقات وہ اس سے صحيح بھى ہو جائے كہ اس كى عقل واپس آجائے تو اس سے تكليف متعلق ہوگى " انتہى

ديكھيں: الاشباہ و النظائر للسيوطى ( 212 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" روزے كى ادائيگى درج ذيل شروط كے ساتھ واجب ہوتى ہے:

پہلى شرط:

عقلمند ہونا.

دوسرى شرط: بالغ ہونا.

تيسرى شرط: مسلمان ہونا.

چوتھى شرط: قدرت و استطاعت ہونا.

پانچويں شرط: مقيم ہونا.

چھٹى شرط: عورت كا حيض اور نفاس كى حالت ميں نہ ہونا.

شروط كى تفصيل:

پہلى شرط: عقلمند ہونا: اس كے مخالف عقل نہ ہونا ہے چاہے وہ بڑھاپے كى بنا پر چلى جائے، يا پھر كسى حادثہ كى بنا پر عقل زائل ہوجائے اور ہوش و حواس كھو بيٹھے، تو اس شخص پر عقل نہ ہونے كى بنا پر كچھ نہيں.

اس بنا پر وہ بوڑھا شخص جو ايسى عمر ميں پہنچ جائے جس ميں ہوش و حواس قائم نہ رہيں تو اس پر نہ تو روزے ہونگے اور نہ ہى وہ فديہ ميں كھانا كھلائيگا، كيونكہ اس ميں تو عقل ہى نہيں ہے.

اور اسى طرح وہ شخص بھى جو كسى حادثہ وغيرہ كى بنا پر بےہوش ہو جائے اور اس كے ہوش و حواس جاتے رہيں تو اس پر نہ تو روزہ ہے اور نہ ہى فديہ ميں كھانا؛ كيونكہ وہ عقلمند نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: لقاءالباب المفتوح ( 4 / 220 ).

شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" بڑھاپے يا كسى حادثہ كى بنا پر جس كى عقل زائل ہو چكى ہو اور اس كے صحيح ہونے كى اميد بھى نہ ہو تو اس پر روزے فرض نہيں مثلا وہ بوڑھا شخص جو ہوش و حواس كھوچكا ہو اور اس كى اتنى عمر ہو جائے كہ اس ميں بات چيت صحيح نہ كر سكے تو وہ بچے كى طرح ہوگا اور اس پر روزے فرض نہيں.

اور اسى طرح وہ شخص جس كى كسى حادثہ ميں عقل جاتى رہى ہو اور واپس آنے كى اميد نہ ہو اس پر روزہ نہيں، ليكن اگر اس كى عقل واپس آنے كى اميد ہو يعنى صرف بےہوش ہوا ہو تو ہوش ميں آنے كے بعد وہ روزے كى قضاء كريگا.

ليكن اگر اس كى عقل مكمل طور پر جاتى رہى ہو تو اس پر كوئى روزہ نہيں، يعنى جب اس پر روزہ فرض نہيں تو پھر اس پر فديہ بھى نہيں ہوگا " انتہى

ماخوذ از: شرح الكافى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.

ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ آپ كے سسر پر نہ تو نماز فرض ہے اور نہ ہى روزہ، اور نہ ہى روزے كے بدلے فديہ ميں كھانا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب