ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

پيدائشى طور پر دماغى مفلوج پر نماز روزہ كى فرضيت كا حكم

108464

تاریخ اشاعت : 22-08-2011

مشاہدات : 4187

سوال

ميرى پچيس سالہ بہن پيدائشى طور پر ہى دماغى مفلوج ہے جس كى بنا پر ہاتھ پاؤں بھى مفلوج ہيں اوربات چيت بھى نہيں كرسكتى اور خود كھا پى بھى نہيں سكتى اور نہ ہى بيت الخلاء جا سكتى ہے اسكى والدہ ہى اسے كھلاتى اور بيت الخلاء لے جاتى ہے.
عقلى اعتبار سے اسے ادراك ہے اور خوشى و غمى كو سمجھتى ہے اور وقت اور اشخاص كو بھى پہچانتى ہے اور قرآن مجيد بھى سنتى ہے.
جناب والا ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا اس پر نماز روزہ اور حج وغيرہ فرض ہيں يا نہيں ؟
وہ نہ تو وضوء كر سكتى ہے اور نہ ہى قرآن كى كوئى سورۃ حفظ كر سكتى ہے، بيٹھ بھى نہيں ميں نے اسے نماز كى تعليم دينے كى بہت كوشش كى ليكن نہ تو ركعات كى تعداد جانتى ہے بلكہ نماز ميں ادھر ادھر ديكھنے لگتى ہے اور بعض اوقات غير ارادى طور پر ہنسنے بھى لگتى ہے، كيا وہ روزہ ركھے يا كہ فديہ ادا كرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو معاملہ اور اس بچى كى حالت بالكل وہى ہے جو سوال ميں بيان ہوئى ہے، اور يہ بہن نماز كے معانى اور كيفت كا ادراك نہيں كر سكتى، اور نہ ہى روزے كى حقيقت كو سمجھتى ہے تو اس كى عقل ميں خلل ہونے كى بنا پر وہ مكلف نہيں، كيونكہ عقل نہ ہونے كى بنا پر اس سے تكليف ساقط ہو جائيگى.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تين قسم كےافراد سے قلم اٹھا ليا گيا ہے: سوئے ہوئے شخص سے حتى كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بچے سے حتى كہ وہ بالغ ہو جائے، اور پاگل و مجنون سے حتى كہ وہ عقلمند ہو جائے"

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4403 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1423 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3432 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2041 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور جب وہ مكلف ہى نہيں تو پھر اس پر روزے كے بدلے ميں كھانا كھلانا واجب نہيں ہوگا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب