جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

بيمارى كى بنا پر پچيس برس قبل روزے نہيں ركھے اور نہ ہى اب تك قضاء كى ہے

سوال

ميرے خاوند كو پچيس برس قبل رمضان سے ايك دن قبل سانپ نے ڈس ليا اور وہ دو ماہ تك خطرناك حالت ميں رہا، اور اس كے بعد والے رمضان ميں بھى اس نے دس روزے نہيں ركھے حتى كہ ڈاكٹر نے اسے روزے ركھنے كى اجازت دے دى.
اس وقت مالى حالت خراب ہونے كى بنا پر ميرا خاوند مسكينوں كو كھانا بھى نہيں كھلا سكا، اب الحمد اللہ مالى حالت اچھى ہے كيا صرف قضاء ميں روزے ركھے يا كہ مسكينوں كو كھانا بھى كھلائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اتنى مدت تك ايك شرعى حكم كے بارہ ميں دريافت نہ كرنا واضح كوتاہى ہے، بلكہ آپ كے خاوند كو چاہيے كہ وہ سانپ كے ڈسنے كے فورا بعد اس حكم كے بارہ ميں دريافت كرتا، خاص كر كہ آپ نے بتايا ہے كہ سانپ نے اسے رمضان سے ايك دن قبل ڈسا تھا.

اس ليے آپ كے خاوند كو اس شرعى حكم كے دريافت كرنے ميں كوتاہى كرنے پر توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور نادم ہوتے ہوئے آئندہ ايسا نہ كرنے كا پختہ عزم كرے، اللہ سبحانہ و تعالى سے اميد ركھتے ہيں كہ اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرمائيگا.

دوم:

قرآن مجيد اور اہل علم كے اجماع كى بنا پر بيمارى ان اعذار ميں شامل ہوتى ہے جن كى بنا پر روزہ چھوڑنا مباح ہو جاتا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ " المغنى " ميں رقمطراز ہيں:

" اہل علم كا اجماع ہے كہ مريض شخص روزہ چھوڑ سكتا ہے، اس كى دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

جو كوئى بھى تم ميں سے بيمار ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرى البقرۃ ( 184 ).

جس مرض كى بنا پر روزہ چھوڑنا مباح ہو جاتا ہے وہ شديد مرض جو روزہ ركھنے كى وجہ سے اور زيادہ ہو جائے يا پھر روزہ ركھنے كى بنا پر بيمارى سے شفايابى ميں اور دير ہو جائے.

اور اگر بيمارى ايسى ہو جس سے شفايابى كى اميد نہ ہو تو ايسے مريض كو فديہ دينا ہوگا، اور فديہ ايك دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلايا جائے، پھر علماء كرام اس ميں اختلاف كرتے ہيں كہ اگر مريض تنگ دست ہو تو كيا خوشحال ہونے كے بعد اسے فديہ دينا ہو گا يا ساقط ہو جائيگا ؟

اگر مرض سے شفايابى اور علاج كى اميد ہو تو مريض شفايابى كا انتظار كرے اور شفايابى كے بعد روزوں كى قضاء ميں روزے ركھے اور اس پر فديہ نہيں ہوگا، اور ايسے مريض كے ليے روزے چھوڑ كر صرف فديہ دينا جائز نہيں.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ايسا مريض جسے بيمارى سے شفايابى كى اميد ہو اس كے ليے فورى طور پر روزے ركھنا لازم نہيں، بلكہ اس پر قضاء لازم ہوگى، يہ اس صورت ميں ہے جب اسے روزہ ركھنے ميں واضح مشقت ہو " انتہى

ديكھيں: المجموع ( 6 / 261 - 262 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس مريض كو مرض سے شفايابى كى اميد نہ ہو وہ روزہ نہ ركھے بلكہ ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلا ديا كرے.... يہ اس شخص پر محمول ہوگا جس كے ليے قضاء ميں روزے ركھنے كى اميد نہ ہو، ليكن اگر اسے قضاء ميں روزے ركھ سكنے كى اميد ہو تو پھر اس پر فديہ نہيں بلكہ وہ قضاء كا انتظار كرے، اور جب روزہ ركھنے كى قدرت ہو تو روزہ ركھے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تم ميں سے جو كوئى بھى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے .

فديہ تو اس وقت ديا جائيگا جب قضاء ميں روزے ركھنے كى اميد نہ رہے " انتہى مختصرا

ديكھيں: المغنى ( 3 / 82 ).

ہميں تو يہى معلوم اور ظاہر ہوتا ہے كہ ـ باقى علم اللہ كے پاس ہے ـ آپ كے خاوند كو جو بيمارى اور مرض لاحق ہوا تھا وہ عارضى تھا اور اس سے شفايابى كى اميد تھى، اور اللہ تعالى نے شفايابى نصيب كر دى اس ليے اس پر ان روزوں كى قضاء ميں روزے ركھنا واجب ہيں جتنے روزے نہيں ركھے تھے اسے ان ايام كے بدلے مسكينوں كو كھانا دينا كافى نہيں ہوگا.

ليكن اگر وہ قضاء كے روزے ركھنے كے ساتھ بطور فديہ مسكين كو كھانا بھى كھلائے تو بہتر ہے، اور پھر آپ نے بيان كيا ہے كہ اب مالى حالت بھى الحمد للہ بہتر ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 26865 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب