جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

بہترین دعا "يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغيثُ أَصْلِحْ لِي شَأْنِيَ كُلَّهُ وَلاَ تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ" کا معنی اور مفہوم

109609

تاریخ اشاعت : 31-12-2021

مشاہدات : 41253

سوال

مجھے کسی نے ایک دعا بتلائی ہے، اس دعا کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں: { يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغيثُ أَصْلِحْ لِي شَأْنِيَ كُلَّهُ وَلاَ تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ} مجھے یہ جاننا ہے کہ کیا یہ دعا صحیح حدیث سے ثابت ہے؟ اور اگر یہ صحیح ہے تو پھر اس کا معنی کیا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

یہ دعا صحیح حدیث میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا: (جو تاکیدی بات میں تمہیں اب کرنے لگا ہوں اسے سننے سے تمہیں کوئی چیز نہ روکے، یا اسے صبح و شام پڑھنے سے کوئی چیز مانع نہ ہو:   يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغيثُ أَصْلِحْ لِي شَأْنِيَ كُلَّهُ وَلاَ تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ  ترجمہ: اے ہمیشہ سے زندہ ذات! اے ہر چیز کو قائم رکھنے والی ذات! میں تجھ سے تیری ہی رحمت کا واسطہ دے کر مدد طلب کرتا ہوں، میرے سارے معاملات سنوار دے، اور مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی میرے اپنے سپرد مت فرما۔) اس روایت کو امام نسائی رحمہ اللہ نے "السنن الكبرى" (6/147) ، اسی طرح "عمل اليوم والليلة" (46) میں اور امام حاکم نے "المستدرك" (1/730) میں جبکہ امام بیہقی نے اسے اپنی کتاب: "الأسماء والصفات" (112) میں بیان کیا ہے، ان کے علاوہ دیگر محدثین بھی اس دعا کو اپنی کتب حدیث میں بیان کر چکے ہیں۔ کچھ محدثین نے " صبح و شام اس کو پڑھیں" کے الفاظ سے روایت کیا ہے۔

علامہ منذری رحمہ اللہ "الترغيب والترهيب" (1/313) میں یہ دعا بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے، جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ "السلسلة الصحيحة" (227) میں کہتے ہیں کہ: اس کی سند حسن ہے۔

نیز یہی دعا معمولی سے فرق کے ساتھ سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مصیبت زدہ شخص کی دعا یہ ہے:   اَللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ أَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ  یا اللہ! میری تیری رحمت کی امید رکھتا ہوں، اس لیے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی مجھے اپنے آپ کے سپرد مت کرنا اور میرے سارے معاملات سنوار دے، تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے۔
اس دعا کو امام احمد : (27898) ، اسی طرح ابو داود :(5090) نے اور علامہ البانی نے اسے صحيح الجامع (3388) میں حسن قرار دیا ہے۔

دوم:

یہ دعا اللہ رب العالمین کے لیے عبودیت ثابت کرنے والی عظیم دعاؤں میں شامل ہے، اس دعا میں اللہ تعالی کے اسما و صفات کا وسیلہ بھی شامل ہے، اس میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی ہمیشہ سے زندہ ہے اور دوسروں کو قائم دائم رکھنے والا ہے، وہی رحم کرنے والا اور نہایت مہربان ہے، تمام کے تمام بندے اللہ تعالی کے قیوم ہونے کی وجہ سے مدد اور تائید اسی سے ہی مانگتے ہیں، اللہ تعالی کی تمام چیزوں سے وسیع رحمت کا واسطہ دے کر غوث طلب کرتے ہیں اور اللہ تعالی سے امید رکھتے ہیں کہ انہیں دنیا و آخرت میں خوشحالی کے اسباب عطا کر دے۔

اس کے بعد بندہ اپنے معاملات اور حالات کی درستگی کے لیے دعا مانگتے ہوئے کہتا ہے: أَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ  یعنی : اللہ! میرے تمام معاملات چاہے ان کا تعلق میرے گھر، اہل خانہ ، پڑوسی، دوست، کاروبار، پڑھائی، ذاتی شخصیت، قلب اور صحت کسی بھی چیز سے ہو، پروردگار! بہتری اور عافیت میرے حصے اور نصیب میں لکھ دے۔ پھر آخر میں وَلاَ تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ کہہ کر یہ اقرار کیا کہ بندہ تو محض مجسمہ فقر و فاقہ ہے ، کامل طور پر اللہ کا محتاج ہے اور یہ سب کچھ محض فضل الہی کی بدولت ہوا، اس لیے نہیں کہ بندے کا حق تھا اور نہ ہی اپنے مقام و مرتبے کی وجہ سے ان چیزوں کا مستحق ہوا ؛ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ: اے اللہ مجھے میری کمزوری اور ناتوانی کی وجہ سے ایک لمحہ بھر بھی تنہا مت چھوڑ، بلکہ مجھے ہر وقت عافیت سے نوازے رکھ، مجھے قوت و قدرت عطا کر کے میری مدد فرما؛ کیونکہ اللہ تعالی پر توکل کرنے والے کو اللہ تعالی کافی ہو جاتا ہے، اللہ تعالی سے مدد طلب کرنے والے کی اللہ تعالی مدد فرماتا ہے، اور دوسری طرف بندہ اللہ تعالی کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں گزار سکتا ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسی وجہ سے ذلیل و رسوا ہونے والے ذلیل ہوئے اور کامیاب ہونے والے کامیاب ہو گئے؛ ذلیل شخص کو اپنی حقیقت کا ادراک نہ ہوا اور اپنے من کو پہچان نہ سکا وہ یہ بھول گیا کہ وہ ہر وقت اللہ تعالی کے سامنے فقیر، حاجت مند اور ضرورت مند ہے؛ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکش اور نافرمان بن گیا، اور اس پر بدبختی آن پڑی، فرمانِ باری تعالی ہے:
كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى (6) أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى
ترجمہ: یقیناً انسان اس وقت سرکش بن جاتا ہے جب وہ یہ سمجھنے لگے کہ اسے کسی کی ضرورت نہیں رہی۔[العلق: 6، 7]

اسی طرح فرمایا:
فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى (5) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى (6) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى (7) وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى (8) وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى (9) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى 
ترجمہ: جو راہِ الہی میں خرچ کرتا ہے اور تقوی اپناتا ہے، نیز سب سے اچھی بات کی تصدیق بھی کرتا ہے تو ہم اسے آسان راستے پر چلنے کی سہولت دیں گے، جبکہ بخیلی اور لا پرواہی برتنے والا شخص جو کہ سب سے اچھی بات کو جھٹلاتا بھی ہے تو ہم اسے مشکل راستے پر چلنے کی سہولت دیں گے۔[الليل: 5 - 9]
اس لیے اللہ تعالی کا سب سے کامل بندہ وہی ہے جو اللہ تعالی کے سامنے سب سے زیادہ ضرورت ، حاجت اور ناتوانی کا اقرار کرتا ہے، اور اللہ تعالی کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا۔
اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعائے مبارکہ ہوا کرتی تھی کہ :  أَصْلِحْ لِي شَأْنِيَ كُلَّهُ وَلاَ تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ وَلَا إِلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِكَ یعنی: پروردگار! میرے تمام معاملات سنوار دے، اور مجھے ایک لمحہ کے لیے بھی میرے اپنے یا اپنی کسی بھی مخلوق کے سپرد مت فرما۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ بھی دعا کیا کرتے تھے کہ:  يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلَى دِيْنِكَ یعنی: اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو تیرے دین پر ثابت قدم بنا دے۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعائیں اس لیے کرتے تھے کہ آپ کو یقین تھا کہ آپ کا دل بھی رحمن کے ہاتھ میں ہے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے دل پر کوئی اختیار نہیں ہے، اللہ تعالی اسے جیسے چاہے پھیر سکتا ہے، آپ کا یہ عقیدہ کیوں نہ ہو!؟ آپ ہی اللہ تعالی کا یہ فرمان تلاوت کیا کرتے تھے: وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا اور اگر ہم نے آپ کو ثابت قدم نہ بنایا ہوتا تو قریب تھا کہ آپ ان کی طرف کچھ مائل ہو جاتے۔ [الإسراء: 74]
لہذا نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی بارگاہ الہی میں اپنی ضرورت اور حاجت اسی قدر رکھتے تھے جس قدر آپ کو اللہ تعالی کی معرفت حاصل تھی اور جس قدر آپ کا مقام اللہ تعالی کے ہاں بلند و بالا تھا۔ " ختم شد
"طريق الهجرتين" (25-26)

مناوی رحمہ اللہ مصیبت زدہ شخص کے متعلق پہلے ذکر کی گئی دوسری روایت کی شرح میں لکھتے ہیں:
"اللہ تعالی کے لیے وحدانیت اور جلال کی گواہی مکمل حاضر قلبی اور توجہ سے دینے والا شخص واقعی اس قابل ہے کہ اللہ تعالی اس کی دنیاوی تکلیف کو زائل کر دے اور آخرت میں رحمت عطا کرتے ہوئے درجات بھی بلند فرمائے۔" ختم شد
فيض القدير" (3/526)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب