اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

دونوں ہاتھوں سے پانی پینے کا حکم

110497

تاریخ اشاعت : 13-10-2015

مشاہدات : 16805

سوال

سوال: دونوں ہاتھوں کیساتھ پکڑ کر پانی پینے کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

دائیں ہاتھ کیساتھ پینے کا حکم اور بائیں ہاتھ سے نہ پینے کی ممانعت واضح لفظوں میں موجود ہے۔
چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی کھائے تو دائیں ہاتھ کیساتھ کھائے، اور جب کوئی پیے تو دائیں ہاتھ سے پیے، کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا  اور پیتا ہے) مسلم: (2020)

اسی طرح جابر بن  عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بائیں ہاتھ سے مت کھاؤ؛ کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے) مسلم: (2019)

ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں دائیں ہاتھ کیساتھ کھانے اور پینے دونوں کی ممانعت ہے، اور یہ بات  سب کو معلوم ہے کہ کسی کام کا حکم دینا اس کام سے متصادم امور  سے ممانعت  کو بھی شامل ہوتا ہے، لیکن پھر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں ہاتھ کیساتھ  کھانے یا پینے کی خصوصی طور پر ممانعت فرمائی جو کہ دائیں ہاتھ کیساتھ کھانے  پر بھر پور تاکید ہے، چنانچہ اگر کسی شخص نے بائیں ہاتھ سے کھایا  یا پیا اور اسے ممانعت کا علم بھی تھا، نیز بائیں ہاتھ سے کھانے کا کوئی عذر  بھی نہیں تھا تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی  نافرمانی کی ہے، اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو یہ بڑی گمراہی کی بات ہے"
" الاستذكار " ( 8 / 341 ، 342 )

دوم:
دونوں ہاتھوں کیساتھ کھانا پینااکیلے دائیں ہاتھ کیساتھ کھانے پینے کی طرح بھی نہیں ہے کہ شریعت کے عین مطابق ہو، اور نہ ہی بائیں ہاتھ سے کھانا پینے کی طرح  ہے کہ شریعت  کے عین مخالف ہو ، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اور کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت ہے؟

ہماری معلومات کے مطابق  یہ ہے کہ ایسا کرنا ضرورت کے مطابق جائز ہے، یعنی جب کسی مسلمان کو دونوں ہاتھوں سے کھانے کی ضرورت محسوس ہو تو کھا سکتا ہے، اور ذخیرہ حدیث میں ایسی احادیث موجود ہیں جن میں  دونوں ہاتھوں کیساتھ کھانے کی واضح دلیل تو نہیں ہے، لیکن ہمارے اندازے کے مطابق اس میں  دونوں ہاتھوں کو استعمال کیے بغیر چارہ بھی نہیں ہے، مثال کے طور پر: یہ ثابت ہے کہ آپ نے برتن سے، یا ڈول سے، یا مشکیزے سے پانی پیا ، اور یہ عموما ان برتنوں سے پانی پیتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو استعمال کرتے ہوئے پانی پیا جاتا ہے۔

1- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دودھ کا برتن تھمایا اور حکم دیا کہ سب اہل صفہ کو پلائیں، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں نے پیالہ پکڑا اور سب اہل صفہ کو پلانے لگا، ایک آدمی کو سیر شکم ہونے تک پلاتا، پھر دوسرے کو  اور اسی طرح آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، سب لوگ سیر شکم ہو چکے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ پکڑا  اور اسے اپنے دونوں ہاتھوں میں رکھا پھر اپنا چہرہ اٹھا کر مسکرائے، اور فرمایا: (ابو ہریرہ ! اب تم پیو! )تو میں  نے  پیا، آپ نے پھر فرمایا: (اور پیو) میں نے پھر  پیا آپ مجھے کہتے گئے (اور پیو)اور میں پیتا چلا گیا، یہاں تک میں مجھے کہنا پڑا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دیکر ارسال فرمایا: اب مزید بالکل بھی گنجائش نہیں ہے، تو آپ نے پیالہ پکڑا ، الحمد للہ  کہا، بسم اللہ پڑھی، اور پھر دودھ نوش فرمایا"
ترمذی: (2477) اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔

حدیث کے الفاظ: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ پکڑا  اور اسے اپنے دونوں ہاتھوں میں رکھا) اس سے پتا چلتا ہے کہ برتن کافی بڑا تھا، جس کی وجہ سے دونوں ہاتھوں کیساتھ پکڑنا پڑا، یہاں سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ پینے کیلئے بھی دونوں ہاتھوں کا استعمال جائز ہے۔

2- ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زمزم [کے کنویں پر] ڈول سے کھڑے ہو کر پانی پیا  " بخاری ( 1556 ) مسلم ( 2027 )

یہاں بھی وہی بات کہی جائے گی جو سابقہ برتنوں کے بارے میں کہی گئی ہے، کیونکہ ایک ہاتھ سے اٹھائے جانے والے برتنوں کے بارے میں "دلو"[ڈول]  کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا، چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے دونوں ہاتھوں سے  اسے اٹھا کر ڈول سے زمزم کا پانی نوش فرمایا۔

3- عبد الرحمن بن ابی عمر  اپنی دادی کبشہ سے بیان کرتے ہیں کہ : (میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو ایک لٹکتے ہوئے  مشکیزے سے کھڑے ہو کر پانی پیا، تو میں نے اس مشکیزے کا منہ کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا) ترمذی: (1892) ابن ماجہ: (3423) اسے البانی نے "صحیح ترمذی"  میں صحیح کہا ہے۔

4- اسی طرح ایک صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کیساتھ پینے کا ارادہ فرمایا،  یہ اصل میں حدیث میں وارد لفظ " الكِراع " کی بعض علمائے کرام کے ہاں تفسیر ہے ۔

حدیث یہ ہے کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصار ی کے پاس آئے، آپ کے ساتھ  آپکا  ایک ساتھی بھی تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری کو کہا کہ: کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک انصاری شخص کے پاس تشریف لائے اور آپ کے ساتھ ایک ساتھی اور تھا، اس انصاری سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کیا تیرے پاس مشک میں رات کا رکھا ہوا (باسی) پانی ہے، ورنہ میں کہیں اور پی لوں گا، راوی کا بیان ہے کہ وہ آدمی باغ میں پانی دے رہا تھا، اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے پاس باسی پانی ہے، آپ چھپر کی طرف تشریف لے چلیں، پھر ان دونوں کو وہ آدمی چھپر میں لے گیا، ایک پیالہ میں پانی ڈال کر اپنی بکری کا دودھ دوہا، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کو پیا، آپ کے بعد پھر اس شخص نے پیا جو آپ کے ساتھ تھا۔  بخاری: (5290)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"حدیث کے الفاظ میں شامل : " وَإِلَّا كَرَعْنَا " اس میں  کچھ  عبارت محذوف ہے، تقدیری عبارت کچھ یوں ہے: " فاسقِنا وإن لم يكن عندك كرعنا "یعنی اگر مشکیزے میں پانی نہیں ہے تو ہم  "کرع" کر لیتے ہیں" ابن ماجہ کی روایت میں  پانی  طلب کرنے کی وضاحت بھی موجود ہے، "کرع" یہ ہے کہ بغیر کسی ہاتھ اور برتن  کے براہِ راست منہ کیساتھ پانی پینا۔
ابن تین کہتے ہیں کہ: "ابو عبد الملک  دونوں ہاتھوں کیساتھ پانی پینے کو "کرع" کہتے ہیں، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اہل لغت  ان کی اس بات سے اختلاف رکھتے ہیں۔

میں [ابن حجر] کہتا ہوں کہ: انکی اس بات کو  ابن ماجہ  کی نقل کردہ عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما کی  روایت  مسترد کرتی ہے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "ہم پانی کے حوض ایک  سے گزرے تو اس میں منہ لگا کر پانی پینے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (منہ لگا کر پانی مت پیو، لیکن ہاتھ  دھو کر  اپنے ہاتھوں  سے پانی پیو) الحدیث، لیکن اس کی سند میں کمزوری ہے، تاہم  اگر صحیح ثابت  بھی ہو تو یہاں نہی تنزیہی  ہے، اورآپ کا عمل  جواز کی دلیل ہے، یا پھر جابر رضی اللہ عنہ والا قصہ ممانعت سے پہلے کا ہےیا بغیر کسی ضرورت کے ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے"
" فتح الباری" ( 10 / 77 )

شیخ ابن باز رحمہ اللہ  جابر رضی اللہ عنہ والی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
"دودھ میں پانی  شامل  کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اس میں  یہ بھی  معلوم ہوتا ہے کہ ترتیب  سے تقسیم کرتے ہوئے پہلے دائیں جانب والے کو دیں، چاہے وہ بائیں ہاتھ والے سے فضل وشرف میں کم ہی ہو، البتہ اگر آپکی دائیں جانب والا بائیں جانب صاحب فضیلت شخصیت کو دینے کی اجازت دے تو کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح  اس میں برتن کی موجودگی  میں بھی "کرع" کی اجازت ہے، "کرع" کہتے ہیں کہ براہِ راست منہ سے پانی پینا، اور اگر برتن میسر ہو یا دونوں ہاتھوں سے پیا جائے تو یہ افضل بات ہے، تا کہ پانی پیتے ہوئے جانوروں کی مشابہت نہ ہو"
" الحلل الإبريزية من التعليقات البازية على صحيح البخاري " ( 4 / 143 )

سوم:

اہل علم کی گفتگو میں ایسی کلام ملتی ہے جس میں دونوں ہاتھوں کیساتھ پانی پینے کا جواز  معلوم ہوتا ہے، ان میں سے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں:

1- نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"ہمارے [شافعی] فقہاء کا کہنا ہے کہ : اگر  اپنے دونوں ہاتھوں کیساتھ پانی پیا، اور اس  نے انگلیوں میں چاندی کی انگوٹھی پہنی ہوئی ہو، تو یہ مکروہ نہیں ہے"
" المجموع " ( 1 / 316 )

2- فرمانِ باری تعالی  إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ ماسوائے اس کے جو اپنے چلو سے پانی پیے [البقرة : 249] کی تفسیر میں  قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
کچھ مفسرین کے نزدیک : " غَرْفَة " ایک ہاتھ کے چلو، جبکہ " غُرْفَة " دو ہاتھوں کے لپ  پر بولا جاتا ہے۔
کچھ مفسرین کے نزدیک دونوں  طرح  ایک ہی مفہوم ہے۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "ہتھیلیاں سب سے صاف ستھرے برتن ہیں"
آج کل  جو شخص  بغیر کسی شک و شبہ کے خالص حلال  کا متلاشی ہے،  وہ اپنے دونوں ہاتھوں کیساتھ  دن رات جاری چشموں اور نہروں  سے پانی پیے"
" تفسیر قرطبی " ( 3 / 253 ، 254 )

خلاصہ:
یہ ہوا کہ دونوں ہاتھوں کیساتھ پانی پینا جائز ہے، اور یہ ممنوع عمل بائیں ہاتھ کیساتھ پانی پینے  میں داخل نہیں ہوتا، ویسے بھی شیطان بائیں ہاتھ سے پیتا ہے، دونوں ہاتھوں سے نہیں، بلکہ کچھ حالات میں  دونوں ہاتھوں کو استعمال کرنا ضروری ہو جاتا ہے، مثلاً: برتن کافی بڑا ہو، یا کسی بڑے مرتبان  یا ڈول سے پانی پینا پڑے یا پھر دایاں ہاتھ کمزور ہو تو اس قسم کے حالات میں دونوں ہاتھوں کو  استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب