جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

حج اور عمرہ میں خاتون اپنے بال کیسے کاٹے؟

سوال

میری والدہ نے عمرہ کرنے کے بعد بالوں کی صرف ایک لٹ کاٹی ، انہیں حکم کا علم نہیں تھا، اب اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بال منڈوانا یا کتروانا عمرے کے واجبات میں سے ہے، تاہم خواتین بال نہیں منڈوائیں گی، خواتین اپنے بال کتروائیں گی۔

البتہ راجح موقف کے مطابق بال کترواتے ہوئے خیال کریں کہ  سب بال کتروائیں، یہ مالکی اور حنبلی فقہائے کرام کا موقف ہے، چنانچہ اگر خاتون نے اپنے سر کی چٹیاں بنائی ہوئی ہیں تو سب کے آخر سے کاٹ لے بصورت دیگر اپنے سارے سر کے بال پکڑ کر آخر سے کاٹ لے، مستحب یہی ہے انگلی کے ایک پورے کے برابر بال کاٹے، نیز ایک پورے سے کم بھی کاٹ سکتی ہے؛ کیونکہ شریعت میں اس چیز کی حد بندی ذکر نہیں ہوئی۔

الباجی رحمہ اللہ "المنتقى" (3/29)کہتے ہیں:
"خاتون اگر احرام باندھے تو اپنی مینڈھیاں جمع کر کے بال کاٹ لے ، چنانچہ عورت احرام کھولتے وقت بال کاٹے گی ۔
بال کاٹنے کی مقدار کتنی ہو گی؟ اس بارے میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے مطابق: "ایک پورے کے برابر" اسی طرح ابن حبیب مالک سے بیان کرتے ہیں کہ ایک پورے سے کم و بیش بال کاٹے۔ امام مالک کہتے ہیں کہ : اس بارے میں ہمارے ہاں کوئی حد بندی نہیں ہے، البتہ سارے بال چاہے بال چھوٹے ہوں یا بڑے تمام میں سےکاٹنا ضروری ہے۔" انتہی

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/196) میں کہتے ہیں:
"سارے سر کے بالوں میں سے کاٹنا یا منڈوانا لازمی ہے ، یہی حکم عورت کا بھی ہے، اس پر [امام احمد]نے صراحت  سے اپنا موقف بیان کیا ہے اور یہی موقف امام مالک کا ہے" انتہی
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
"جتنی مقدار میں بھی بال کاٹ لے عورت کیلیے کافی ہے۔ اس کی تفصیلات کیلیے امام احمد کہتے ہیں کہ: "ایک پورے کے برابر کاٹے" یہ ابن عمر، شافی، اسحاق، ابو ثور رحمہم اللہ کا ہے، نیز ابن عمر رضی اللہ عنہما کے موقف کی وجہ سے  یہ مستحب بھی ہے" انتہی

ایک اور جگہ "المغنی"(3/226) میں کہتے ہیں کہ:
"عورت اپنے بالوں میں سے ایک پورے کے برابر بال کاٹے گی، پورے سے مراد یہ ہے کہ انگلی کے آخری جوڑ سے لیکر ناخن کی جانب آخر تک ۔
متفقہ طور پر خاتون کیلیے عمرے میں بال کٹوانا شرعی عمل ہے منڈوانے کی اجازت نہیں ہے، ابن منذر کہتے ہیں کہ: "اس بات پر سب اہل علم کا اتفاق ہے" نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (عورتوں کیلیے منڈوانا جائز نہیں ہے، خواتین صرف بال کٹوائیں گی) ابو داود
اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو سر منڈوانے سے منع فرمایا) ترمذی
امام احمد کہا کرتے تھے کہ: "خاتون اپنی تمام مینڈھیوں میں سے ایک پورے کے برابر کاٹ لے، یہی موقف ابن عمر، شافعی، اسحاق، ابو ثور کا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں کہ: میں نے امام احمد کو سنا آپ سے پوچھا گیا تھا کہ عورت اپنے سارے سر کے بال کٹوائے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، اپنے سارے بال سامنے کی جانب اکٹھے کر لے اور پھر اپنے بالوں کے کنارے سے انگلی کے پورے کے برابر کاٹ لے " انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (7/329) میں کہتے ہیں :
"مصنف  کا قول کہ: "عورت انگلی کے پورے کے برابر بال کٹوائے" کا مطلب یہ ہے کہ انگلی  کے آخری جوڑ سے لے لیکر انگلی کے آخر تک  لمبے بال کاٹے، یعنی اگر چٹیاں بنائی ہوئی ہیں تو پھر آخری کنارے سے پکڑ کر ایک پورے کے برابر کاٹ دے  اور اگر چٹیاں نہیں بنائیں  تو بالوں کے آخری کنارے سے ایک پورے کے برابر بال کاٹ دے، اس کی مقدار دو سینٹی میٹر کے قریب ہے، واضح رہے کہ خواتین کے ہاں یہ جو مشہور ہے کہ اپنی انگلی پر لپیٹ کر دیکھے جتنے بال آئیں اتنی مقدار میں کاٹ دے یہی واجب ہے ، یہ بات درست نہیں ہے "انتہی

مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اگر کسی عورت نے ایک لٹ  سے بال کاٹے ہیں تو اس نے معتبر انداز میں بال نہیں کاٹے، اب اس خاتون کو ہمارے بیان کردہ طریقے کے مطابق بال کاٹنے ہوں گے، البتہ ماضی میں احرام کے منافی امور کا ارتکاب کرنے پر اس خاتون کے ذمہ کچھ نہیں ہو گا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ایک ایسی عورت کے بارے میں کہتے ہیں جس کا عمرہ ابھی مکمل نہیں ہوا:
"اگر یہ عورت احرام کے منافی کوئی کام کر لیتی ہے مثال کے طور پر اس کا خاوند اس سے ہمبستری کر لیتا ہے ، اور احرام کی حالت میں جماع کرنا  سب سے بڑا ممنوع عمل ہے ، تب بھی اس خاتون پر کچھ نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس خاتون کو احرام کی پابندیاں جاری ہونے کا علم ہی نہیں تھا ، اور کوئی بھی شخص احرام کی پابندیاں لا علمی کی حالت میں توڑ دے یا بھول کر یا جبراً  تو اس پر کچھ نہیں ہوتا" انتہی
ماخوذ از مختصراً: "مجموع فتاوى ابن عثیمین" (21/351)

اسی طرح ابن عثیمین رحمہ اللہ سے یہ بھی استفسار کیا گیا:
"ایک آدمی نے عمرے کے بعد صرف ایک ہی جانب سے بال کٹوائے اور پھر جب واپس گھر پہنچا  تو اسے علم ہوا کہ اس نے غلط کیا ہے، اب اسے کے ذمہ کیا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
اگر اس نے یہ کام لا علمی کی بنا پر کیا ہے تو اب اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنے کپڑے کی جگہ احرام باندھ لے اور پورے سر کے بال کٹوائے یا منڈوائے، نیز اس کا کیا ہوا عمل معاف ہو گا؛ کیونکہ وہ جاہل تھا، نیز بال منڈوانے یا کٹوانے کیلیے یہ شرط نہیں ہے کہ مکہ میں ہی ہو، چنانچہ مکہ یا کسی اور جگہ بھی بال کٹوائے جا سکتے ، البتہ اگر اس نے کسی اہل علم کے فتوے کی بنا پر ایسا کیا ہے تو اس پر کچھ نہیں ہے ؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ اگر تمہیں علم نہیں ہے تو پھر اہل علم سے پوچھ لو۔[النحل: 43]  چنانچہ کچھ اہل علم کا موقف یہ ہے کہ کچھ سر کے بال کٹوانا  ایسے ہی ہے جیسے پورے سر کے بال کٹوانا" انتہی
ماخوذ از: "اللقاء الشهري" نمبر: 10

خاتون کیلیے یہ لازمی نہیں ہے کہ بال کاٹنے سے پہلے اپنے احرام والے کپڑے پہنے؛ کیونکہ  خاتون کیلیے عام کپڑے ہی احرام  ہوتے ہیں، البتہ خاتون کو نقاب اور دستانے پہننے کی ممانعت ہوتی ہے۔
واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب