منگل 18 جمادی اولی 1446 - 19 نومبر 2024
اردو

نشئى خاوند سے طلاق لينا

111875

تاریخ اشاعت : 04-05-2009

مشاہدات : 14336

سوال

كيا عورت كے ليے شرابى اور نشئى خاوند سے طلاق طلب كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اصل ميں عورت كے ليے طلاق كا مطالبہ كرنا جائز نہيں ليكن اگر اس كا كوئى سبب ہو تو پھر جائز ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس عورت نے بھى اپنے خاوند سے بغير كسى سبب كے طلاق طلب كى اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 2035 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:

" من غير باس " سے مراد يہ ہے كہ: بغير كسى سخت ضرورت كے جو جدائى كے سوال كا باعث بن سكتى ہو.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عورت كا خاوند سے طلاق طلب كرنے كى ترہيب ميں جتنى بھى احاديث وارد ہيں وہ سب اس پر محمول كى جائينگى كہ جب طلاق كا متقاضى كوئى سبب نہ ہو تو عورت كے ليے طلاق كا مطالبہ كرنا جائز نہيں، ثوبان رضى اللہ عنہ كى حديث كى وجہ سے، پھر انہوں نے مندرجہ بالا حديث ذكر كى ہے " انتہى

بلاشك و شبہ كسى شخص كا شرابى اور نشئى ہونا بہت بڑا نقص ہے، جو عورت كے دين اور دنيا كے ليے نقصاندہ ہے، كيونكہ خدشہ ہے كہ كہيں وہ نشہ كى حالت ميں بيوى كے پاس آئے اور اسے زدكوب كرنا شروع كر دے يا سب و شتم كرے يا پھر اس وقت بيوى كو ايسا كام كرنے كا كہے جو جائز نہ ہو.

اس طرح كا عذر اور عيب عورت كے ليے خاوند سے طلاق طلب كرنے كا مباح سبب شمار ہو گا، ليكن عورت كو چاہيے كہ وہ خاوند كے معاملہ ميں صبر سے كام لے اور حسب استطاعت اس كى اصلاح كى كوشش كرے، اور اگر ايسا كرنے سے عاجز ہو اور خاوند كے ساتھ رہنے ميں اسے نقصان ہوتا ہو تو پھر اس صورت ميں اس كے ليے طلاق طلب كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

نشہ كرنے والے خاوند سے بيوى كا طلاق طلب كرنے ميں كيا حكم ہے، اور اس كے ساتھ رہنے كا حكم كيا ہو گا ؟ يہ علم ميں رہے كہ عورت اور اس كى اولاد كى ديكھ بھال كرنے والا خاوند كے علاوہ كوئى اور نہيں ہے ؟

" نشئى شخص سے بيوى كاطلاق طلب كرنا جائز ہے، كيونكہ اس كے خاوند كى حالت پسنديدہ نہيں، جب وہ اس حالت ميں طلاق طلب كرتى ہے تو سات برس كى عمر سے كم بچے ماں كے ساتھ جائينگے، اور والد ان كے اخراجات كا ذمہ دار ہو گا.

اور اگر بيوى كا خاوند كے ساتھ رہنا ممكن ہو تا كہ نصيحت وغيرہ كے ذريعہ اس كى اصلاح كر سكے تو يہ بہتر ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 745 - 746 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب