اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اسلام ميں اجتھاد كا حكم اور مجتھد كى شروط

111926

تاریخ اشاعت : 10-11-2008

مشاہدات : 13341

سوال

اسلام ميں اجتھاد كرنے كا حكم كيا ہے، اور مجتھد كى شروط كيا ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شرعى دلائل سے كسى شرعى حكم كا ادراك كرنے كے ليے جدوجھد كرنے كو اسلام ميں اجتھاد كہتے ہيں، اور اور ہر قدرت ركھنے والے شخص پر ايسا كرنا واجب ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اگر تمہيں علم نہيں تو اہل علم سے دريافت كر ليا كرو النحل ( 43 ). اور الانبياء ( 7 ).

اجتھاد پر قدرت ركھنے والا شخص خود ہى حق كى پہچان سكتا ہے، ليكن اس كے ليے علم كى وسعت ہونا اور شرعى نصوص پر مطلع ہونا، اور مرعى اصول اور اہل علم كے اقوال كى معرفت ضرورى ہے؛ تا كہ وہ اس كى مخالفت ميں نہ پڑ جائے.

كيونكہ لوگوں ميں ايسے طالب علم بھى ہيں جنہوں نے تھوڑا سا علم حاصل كيا اور اپنے آپ كو مجتھد سمجھنا شروع كر ديا ہے، آپ ديكھيں گے كہ وہ ايسى عام احاديث پر عمل كرتا ہے جس كو خاص كرنے والى احاديث بھى موجود ہيں، يا پھر وہ منسوخ احاديث پر عمل كرتا ہے جن كى منسوخ احاديث كا اسے علم نہيں، يا پھر وہ ايسى احاديث پر عمل كر رہا ہے جن كے متعلق علماء كرام كا اجماع ہے كہ وہ اپنى ظاہر كے خلاف ہيں اور اسے علماء كرام كے اجماع كا علم نہيں ہوتا.

اس طرح كا شخص بہت عظيم خطرے ميں ہے، كيونكہ مجتھد كے پاس شرعى دلائل كا علم ہونا ضرورى ہے، اور اس كے پاس ان اصول كا علم ہونا ضرورى ہے جن كى معرفت ہونے پر وہ دلائل سے احكام استنباط كرنے كى استطاعت ركھ سكتا ہے، جس پر علماء ہيں اس كا بھى علم ہونا چاہيے، تا كہ وہ بغير علم كے اجماع كى مخالفت ميں نہ پڑ جائے؛ جب يہ شروط اس ميں موجود ہوں تو پھر وہ مجتھد ہے.

اور اجتھاد كے حصے بھى ہو سكتے ہيں، وہ اس طرح كہ انسان كسى علمى مسائل ميں سے ايك مسئلہ ميں بحث و تحقيق كرے تو وہ اس مسئلہ ميں مجتھد ہو گا، يا پھر علم كے كسى باب ميں، مثلا باب الطہارۃ كے متعلق بحث اور تحقيق كرے تو وہ اس ميں مجتھد ٹھرےگا " انتہى

فتوى شيخ ابن عثيمين اس فتوى پر شيخ كے دستخط موجود ہيں.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب