جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

كيا زانى عورت كا نكاح فسخ ہو جاتا ہے ؟

111983

تاریخ اشاعت : 03-11-2008

مشاہدات : 9030

سوال

كيا اگر شادى شدہ عورت زنا كرے تو وہ بيوى رہتى ہے، يا كہ اس كا نكاح فسخ ہو جاتا ہے اور اس فعل كى بنا پر اسے طلاق ہو جاتى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب شادى شدہ عورت زنا كا ارتكاب كرے تو اس سے اس كا نكاح فسخ نہيں ہوتا، اور نہ ہى صرف يہ معصيت واقع ہونے سے اسے طلاق ہوتى ہے، ليكن.. اگر وہ توبہ نہ كرے اور اس فحش كام پر اصرار كرے تو اس كے خاوند كو اسے طلاق دينے كا حكم ديا جائيگا، تا كہ وہ اپنى عزت اور اولاد كى حفاظت كر سكے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اگر عورت مرد سے زنا كرے، يا اس كا خاوند زنا كرے تو عام اہل علم كے قول كے مطابق نكاح فسخ نہيں ہوگا، چاہے زنا دخول سے قبل ہو يا دخول كے بعد، ليكن امام احمد نے بيوى كے زنا كرنے كى صورت ميں مرد كے ليے بيوى كو چھوڑنا مستحب قرار ديا ہے.

ان كا كہنا ہے: ميرے رائے كے مطابق اس طرح كى عورت كو ركھنا نہيں چاہيے، كيونكہ خدشہ ہے كہ وہ اس كا بستر خراب كريگى، اور ايسى اولاد اس سے ملحق كريگى جو اس كى نہيں.

ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں: لگتا ہے جس نے اس عورت كو ناپسند كيا ہے وہ حرام ہونے كى وجہ سے نہيں بلكہ مكروہ ہے، تو يہ امام احمد كے اس قول جيسا ہى ہو گا.

امام احمد رحمہ اللہ كا قول ہے:

وہ تين حيض سے اس كا استبراء رحم كيے بغير اس سے وطئ اور جماع نہ كرے...

اور بہتر يہى ہے كہ ايك حيض كے ساتھ ہى اس كا استبراء رحم كافى ہے " انتہى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 565 ).

اور كشاف القناع ميں درج ہے:

" اور اگر دخول سے قبل يا بعد عورت زنا كرے تو نكاح فسخ نہيں ہوتا، يا پھر مرد اپنى بيوى سے دخول كرنے سے قبل يا بعد زنا كا مرتكب ہو تو زنا سے نكاح فسخ نہيں ہوگا، اور نہ ہى اس كے نكاح ميں رہنا حرام ہوتا ہے، بعض جنہوں نے زانيہ كے نكاح سے ممانعت كا كہا ہے انہوں نے اس كے نكاح ميں ہميشہ رہنا ميں فرق كرتے ہوئے ايسا كہا ہے.

اس قول والوں نے عمرو بن احوص حبشى رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:

وہ بيان كرتے ہيں كہ وہ حجۃ الوداع كے كے موقع پر موجود تھے، وہاں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اللہ كى حمد و ثنا بيان كى اور وعظ و نصيحت فرماتے ہوئے كہا:

" عورتوں كے ساتھ اچھا اور بہتر سلوك كيا كرو، كيونكہ وہ تمہارے ماتحت اور قيدى ہيں، تم انہيں تكليف دينے كے مالك نہيں، الا يہ كہ اگر وہ واضح فحش كام كريں اگر وہ اس كى مرتكب ہوں تو ان كے پاس مت جاؤ اور بستر ميں انہيں عليحدہ چھوڑ دو، اور انہيں مارو ليكن وہ زخم نہ كرے اور ہڈى نہ توڑے، اور اگر وہ تمہارى بات مان ليں تو تم ان كے خلاف كوئى راہ تلاش مت كرو "

علامہ شوكانى عمرو بن احوص رضى اللہ تعالى عنہ كى اس حديث كے متعلق كہتے ہيں:

اسے ابن ماجہ اور ترمذى نے روايت كيا اور اسے صحيح كہا ہے، اور ابن عبد البر "الاستيعاب " ميں عمرو بن احوص كے حالات زندگى لكھتے ہوئے كہتے ہيں: اور خطبہ كے متعلق اس كى حديث صحيح ہے" اھـ

ديكھيں: كشاف القناع ( 5 / 2 ).

اور خطبہ كے متعلق ان كى يہى حديث ہے اس كى دليل ان كا يہ قول ہے:

" تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اللہ كى حمد و ثنا بيان كى اور وعظ و نصيحت فرمائى "

اور يہ وعظ و نصيحت ہى خطبہ ہے جيسا كہ معروف بھى ہے....

اس سے آپ يہ جان سكتے ہيں كہ جس كا قول يہ ہے: جس كى بيوى نے زنا كيا تو اس كا نكاح فسخ ہو گيا اور وہ اس پر حرام ہو گئى " يہ قول تحيقيق كے خلاف ہے، باقى علم تو اللہ تعالى كے پاس ہى ہے " انتہى.

ديكھيں: اضواء البيان ( 6 / 82 - 83 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب