الحمد للہ.
بلاشك آپ نے اس شخص كے جو حالات بيان كيے ہيں اس سے تو يہى علم ہوتا ہے كہ وہ اپنے بيٹے كے ليے اخلاقى اور دينى طور پر نمونہ و قدوہ نہيں، اور نہ ہى وہ بچے كى تربيت و پرورش كرنے كا اہل ہے، ليكن يہ چيز اسے بچے كو ملنے اور ديكھنا حرام نہيں كرتى، بلكہ وقتا فوقتا وہ اس كو ديكھ سكتا اور مل سكتا ہے اور اسى طرح بيٹے كو بھى باپ كے ساتھ لازمى طور پر حسن سلوك كرنا ہو گا.
باپ كا بچے كى حقوق كى ادائيگى ميں كوتاہى كرنا اور زيادتى كرنے يا پھر اس كا ظالم و جابر ہونے كا مطلب يہ نہيں كہ بيٹا بھى اس كو چھوڑ دے اور اس كے ساتھ حسن سلوك نہ كرے، اور نہ ہى بچے كو ہم اس كى ترغيب دلاتے ہيں، كيونكہ باپ كا حق بہت زيادہ عظيم ہے، جس طرح ماں كا حق ہے اسى طرح باپ كا بھى حق عظيم ہے.
فقھاء كرام كا فيصلہ ہے كہ اگر بچہ ماں كى پرورش ميں ہو تو باپ كو اسے ديكھنے اور ملنے كا حق حاصل ہے، اور اسے ملنے سے روكا نہيں جا سكتا.
اس ميں اختلاف ہے كہ كتنے عرصہ بعد باپ بچے كو ملے اس مسئلہ ميں حنابلہ نے عرف عام كو مرجع قرار ديا ہے، مثلا وہ ہفتہ ميں ايك بار بچے كو ملنے آئے، فقھاء نے تنبيہ كى ہے كہ خاوند اور بيوى كے مابين جدائى اور عليحدگى كے بعد وہ آپس ميں اجنبى ہونگے، اس ليے اس كا خيال ركھنا ضرورى ہے، اگر وہ بچے كو ملنے بچے كى ماں كے گھر جاتا ہے تو وہاں زيادہ دير تك مت بيٹھے، اور مطلقہ عورت كے ساتھ خلوت بھى نہيں ہونى چاہيے اور مطلقہ عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ اسے اپنے گھر ميں داخل ہونے سے منع كر سكتى ہے، ليكن بچہ والد كو ملنے گھر سے باہر جائيگا.
اور اگر بچہ بيمار ہو جائے تو باپ كو اپنے بچے كى عيادت كرنے سے نہيں روكا جا سكتا، اور اسى طرح ہر حقدار كو اس كا حق ديا جائيگا "
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 17 / 317 ) اور المغنى ابن قدامہ ( 8 / 193 ).
آپ كو يہ معاملہ سمجھنا چاہيے، اور كوشش كريں كہ باپ اور بيٹے كے درميان تفريق كى كوشش مت كريں، يا پھر بيٹے كے دل ميں باپ سے بغض و كراہت كا بيج مت بوئيں، كيونكہ ايسا كرنا ـ حرام ہونے كے ساتھ ساتھ ـ بچے كے اخلاق اور سلوك كے ليے بھى نقصاندہ ہے.
اور اگر آپ كو خدشہ ہے كہ بيٹا اپنے والد كے كچھ برے اخلاق سے متاثر ہو سكتا ہے، تو اس كو آپ اچھى تربيت اور راہنمائى كے ذريعہ ختم كر سكتى ہيں، ليكن باپ كے متعلق اس كے ذہن كو غلط مت بنائيں، يا بيٹے كے ذہن ميں باپ كا غلط تصور نہ بٹھائيں.
حاصل يہ ہوا كہ آپ كے ليے باپ كو بيٹے سے ملنے نہ دينا جائز نہيں، اور اسى طرح باپ كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ ماں كو بيٹے سے ملنے سے مت روكے، بلكہ آپ كے ليے ضرورى و واجب ہے كہ اسے بيٹے كو ملنا ممكن بنائيں يا تو اپنے گھر ميں اور اس وقت آپ كے پاس محرم ہونا ضرورى ہے تا كہ جب وہ آپ كے گھر آئے تو آپ امن ميں ہوں، يا پھر گھر سے باہر ملنے ديں اور اگر آپ دونوں كسى عرصہ كو متعين كر ليں مثلا ہر ہفتہ يا دو ہفتے بعد يا كوئى اور مدت تو يہ بہتر ہے، اور اس ميں اپنے بچے كى تربيت كى كوشش كريں، اور بچے كو اپنے باپ كے متعلق اخلاق حميدہ اختيار كرنے كى كوشش كريں.
اور كوشش كريں كہ بچہ اپنے باپ كے متعلق كوئى بغض و كينہ اور ناراضگى مت ركھے، كيونكہ ايسا كرنا حرام ہے اس ليے كہ يہ قطع رحمى كى دعوت ديتا ہے.
اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
تم سے يہ بھى بعيد نہيں كہ اگر تمہيں حكومت مل جائے تو تم زمين ميں فساد بپا كر دو، اور رشتے ناطے توڑ ڈالو، يہ وہى لوگ ہيں جن پر اللہ پھٹكار ہے اور جن كى سماعت اور آنكھوں كى روشنى چھين لى گئى ہے محمد ( 22 - 23 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" قطعى رحمى كرنے والا جنت ميں داخل نہيں ہو گا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 4637 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" جب بيوى زوجيت والے گھر سے نكل جائے، يا مثلا خاوند اور بيوى كے درميان طلاق كى وجہ سے عليحدگى ہو جائے اور ان كا كوئى بچہ بھى ہو تو شريعت اسلاميہ ميں ان دونوں ميں سے كسى كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ بچے كو ملنے اور ديكھنے سے منع كريں.
اس ليے اگر بچہ ماں كى پرورش ميں تو اس كے ليے باپ كو بچہ ديكھنے اور اس سے ملنے سے روكنا جائز نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے صلہ رحمى كو واجب كرتے ہوئے فرمايا ہے:
اور اللہ كى عبادت كرو اور اس كے ساتھ كسى دوسرے كو شريك مت كرو، اور والدين اور رشتہ داروں كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آؤ النساء ( 36 ).
اور حديث ميں ہے:
" جس كسى نے بھى والدہ اور اس كے بچے كے درميان تفريق اور جدائى ڈالى تو اللہ تعالى روز قيامت اس كے اور جس سے وہ محبت كرتا ہے كے درميان جدائى ڈال دے گا " انتہى
اس حديث كو ترمذى نے ( 1204 ) ميں روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 21 / 205 ).
اس مسئلہ ميں آپ شرعى حكم جان چكى ہيں، لہذا آپ لوگ ان غير شرعى عدالتوں ميں جانے سے اجتناب كريں، اور تا كہ باپ كو بيٹے سے ملاقات نہ كرنے دى جائے، اگرچہ آپ كو اپنے اوپر ظلم و زيادتى كرنے والے كو منع كرنے يا بچے سے محروم كرنے كى وجہ سے عدالتوں ميں جانے كا حق بھى حاصل ہو تو بھى ان غير شرعى عدالتوں ميں مت جائيں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ بچے كى تربيت ميں آپ كى معاونت فرمائے، اور آپ كو خير و فلاح اور كاميابى اور صحيح راہ كى توفيق سے نوازے.
واللہ اعلم .