سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

تعليم ميں معاونت كرنے والا خاوند تلاش كرنا

112068

تاریخ اشاعت : 25-04-2011

مشاہدات : 4267

سوال

ميرى عمر بيس برس ہے اور كالج كى تعليم تقريبا ختم ہونے والى ہے، الحمد للہ ميں قدرے خوبصورت بھى ہوں،، ميرے ليے بہت ہى نادر رشتے آئے ہيں، اور جو رشتہ آيا وہ بھى ديندار نہ تھا يا تو اس كا لباس ٹخنوں سے نيچے تھا يا پھر داڑھى منڈا، يا كوئى اور معصيت كا مرتكب.
ميں چاہتى ہوں كہ كوئى طالب علم اور دين پر عمل كرنے والا شخص ہو، كيونكہ ميں اپنى تعليم جارى ركھنا چاہتى ہوں يعنى ايم اے اور پى ايچ ڈى كرنا چاہتى ہوں اس ليے كوئى ايسا خاوند ہو جو اس سلسلہ ميں ميرا معاون ثابت ہو، ميرا سوال يہ ہے كہ:
كيا ميں ان صفات كے حامل شخص كا رشتہ آنے تك صبر كروں يا كہ نمازى شخص چاہے اس ميں معاصى ہوں اور غير ملتزم شخص كے ساتھ شادى كرنا قبول كر لوں ؟
جناب مولانا صاحب اس سلسلہ ميں ميرى راہنمائى كريں ... ميں آپ كے ليے دعا گو رہونگى، اور ميرى آپ سے گزارش ہے كہ آپ رات كے وقت تنہائى ميں ميرے ليے اللہ سبحانہ و تعالى سے نيك و صالح خاوند طلب كريں جو ميرى تعليم ميں ميرا معاون ثابت ہو.

جواب کا متن

الحمد للہ.

ميرى اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ اپنے اسماء حسنى اور اپنى بلند صفات كے واسطہ آپ اور سب مسلمان لڑكيوں كو نيك و صالح اور اچھے خاوند عطا فرمائے، اور دين و دنيا كى سعادت آپ كے مقدر ميں كرے.

پھر ہم آپ كو تين چيزوں كى نصيحت كرتے ہيں كيونكہ ميں انہيں ضرورى اور اہم سمجھتا ہوں:

اول:

رشتہ قبول يا انكار كرنے ميں آپ كے ليے ميزان اور معيار اخلاق اور دين ہونا چاہيے جس كے مطابق آپ كوئى فيصلہ كريں وہ اخلاق و دين ہى ہو، نہ كہ ظاہر، ليكن ہم اس سے انكار نہيں كرتے كہ ظاہر كو بھى ديكھنا مستحب اور شرعى چيز ہے ليكن اگر اس ظاہر كے ساتھ دل اور اندورنى طور پر صاف نہ ہو تو يہ چيز اللہ كے ہاں بالكل كوئى فائدہ نہيں دےگى.

كيونكہ درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں بھى اسى طرح متنبہ كيا گيا ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

يہى نيكي و اچھائى نہيں كہ منہ مشرق و مغرب كى طرف كر ليا جائے، بلكہ حقيقت ميں اچھا شخص وہ ہے جو اللہ تعالى پر اور روز قيامت پر، اور فرشتوں پر اور اللہ كى كتاب پر اور سارے انبياء پر ايمان ر كھنے والا ہو، جو مال سے محبتك رنے كے باوجود قرابت داروں، يتيموں، مسكينوں، مسافروں اور سوال كرنے والوں كو دے، غلاموں كو آزاد كرے، نماز كى پابندى كرنے والا اور زكوۃ دينے والا ہو، جب وعدہ كرے تو اسے پورا كرے، تنگدستى، دكھ درد اور لڑائى كے وقت صبر كرے، يہى سچے لوگ ہيں اور يہى پرہيزگار ہيں البقرۃ ( 177 ).

احياء علوم الدين ( 2 / 172 ) ميں درج ہے:

" جديد كا قول ہے: ميرے ليے يہ بہتر ہے كہ برے اخلاق والے نيك و صالح اور قارى كى بجائے اچھے اخلاق كا مالك فاسق شخص ميرے ساتھ ہو "

ايك شخص نے حسن رحمہ اللہ سے كہا:

ميرى بيٹى كے ليے كئى ايك رشتے آئے ہيں ميں ان ميں سے كس سے ساتھ بيٹى كى شادى كروں ؟

انہوں نے فرمايا: ان ميں سے جو اللہ كا ڈر اور تقوى اختيار كرنے والا ہے، كيونكہ جب وہ اسے يعنى آپ كى بيٹى كو پسند كريگا اور اس سے محبت كريگا تو اس كى عزت كريگا اور اگر وہ اس سے ناراض بھى ہوا تو اس پر ظلم نہيں كريگا.

اور پھر دين تو حسن اخلاق كا نام ہے جس كے ليے معيار يہ ہے كہ وہ اسلام كے فرائض و واجبات كى پابندى كرنے والا ہو، اور حرام كاموں اور معاصى سے اجتناب كرے، اور نفل و نوافل اور مكارم اخلاق كى پابندى كرتا ہو.

بات كرے تو سچائى كے ساتھ، اور امانت كى ادائيگى كرنے والا ہو، اور عفو و درگزر سے كام لے، اور سخاوت كرنے والا، اور معاملات كو حسن اسلوبى سے حل كرنے والا ہو، اعلانيہ اور پوشيدہ ہر طرح اللہ كا تقوى اختيار كرنے والا ہو.

معيار يہ نہيں كہ اس كى داڑھى لمبى ہو اور لباس ٹخنوں سے اونچا، يہ معيار نہيں كہ اس كے استاد اور پير و مشائخ زيادہ ہوں، يا درس وغيرہ ميں زيادہ جاتا ہو، يعنى وہ ظاہرى اعمال جن سے اكثر لوگ دھوكہ كھا جاتے ہيں، اور وہ صرف ان ظاہرى اعمال كى طرف توجہ دے كر جوہر اور اصل و حقيقت كو بھول جاتے ہيں.

دوم:

مناسب خاوند تلاش كرنے ميں كوئى حرج نہيں، يا پھر آپ نيك و صالح خاوند تلاش كرنے كے ليے اپنے كسى ولى كو ذمہ دارى دينے ميں كوئى حرج نہيں، كہ اسے بتايا جائے كہ ايسے شخص سے شادى كى رغبت ركھتى ہوں، ليكن اس ميں اسلوب اور طريقہ ايسا اختيار كريں جس ميں كوئى حرج اور تنگى نہ ہو اور مقصد بھى پورا ہو جائے.

عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنى بيٹى حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا كا رشتہ تلاش كيا، اور سعيد بن مسيب رحمہ اللہ نے بھى اپنى بيٹى كا رشتہ كيا تھا، بہت سارے ايسے واقعات ملتے ہيں جس ميں عورت كے ولى نے ہى رشتہ تلاش كرنے كى ابتداء كى ہے، جس ميں حرص يہ ہوتى تھى كہ ان كى بيٹى كو سعادت حاصل ہو اور اس كے ليے بہتر خاوند مل جائے.

ہمارى اس ويب سائٹ پر ايسا جواب موجود ہے جس ميں اس سلسلہ ميں كچھ اصول و ضوابط اور بعض تجاويز پيش كى گئى ہيں، آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

سوم:

آپ ايسا مت كہيں كہ چلو ہو جائےگا، اور اسے ليٹ كرنے ميں بھى مبالغہ سے مت كام ليں، كيونكہ ہو سكتا ہے مقصد حاصل نہ ہو اور پھر آپ اس پر نادم ہوتى رہيں، اور اگر آپ كو مستقبل قريب ميں شادى كى عمر نہ نكلنے اور آنسہ ہو جانے كا ڈر نہيں تو پھر يہ نصيحت مستقبل كے ليے بن سكتى ہے.

اس سلسلہ ميں معاشرے مختلف ہيں، غالبا لڑكى انكار كرنے كى حد سے تجاوز كا ادراك نہيں كر سكتى، اس ليے اسے اپنے بارہ ميں نظر دوڑانى چاہيے اور اس معاملے كا جلد ادراك كرنا چاہيے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر ميرے ليے نماز كى پابندى كرنے والا اور دينى طور پر قابل قبول نوجوان كا رشتہ آئے تو كيا ميرے ليے اس رشتہ سے انكار كرنا ممكن ہے، كيونكہ ميں تو دينى اور عقلى طور پر اس نوجوان سے بھى زيادہ كامل كى تلاش ميں ہوں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

بعض اوقات جلدبازى كرنے والا غلطى كر بيٹھتا ہے، اور دير اور سوچ سمجھ كر معاملہ كو حل كرنے والا اپنا مقصد پا ليتا ہے.

اور كچھ ايسے لوگ بھى ہوتے ہيں جو معاملات كو مؤخر كر كے اپنا زيادہ معاملہ ضائع كر بيٹھتے ہيں اور رائے يہ ہوتے ہے كہ كاش وہ جلدى كر ليتے تو بہتر تھا.

اگر انسان كو موقع ملے تو اسے يہ موقع اور فرصت ضائع نہيں كرنا چاہيے، اس ليے اگر كسى بااخلاق اور دين والے شخص كا رشتہ آئے تو پھر وہ اس رشتہ كو اس سے بھى بہتر رشتہ كے انتظار ميں ضائع مت كرے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے اس سے اچھا رشتہ نہ آئے.

اور خاص كر جب عورت كى عمر زيادہ ہو جائے اور وہ بڑى عمر كى ہو جائے تو پھر رشتہ آنے كى صورت ميں اسے بالكل ايسى كوتاہى نہيں كرنى چاہيے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب تمہارے پاس ايسا رشتہ آئے جس كے دين اور اخلاق كو پسند كرتے ہو تو اس كى شادى كر دو "

اس ليے جب آنے والے رشتے كا دين اور اخلاق پسند ہو تو آپ شادى كر ليں، اور آپ ايسے معاملہ كا انتظار مت كرتى رہيں جس كے بارہ ميں آپ كو علم ہى نہيں كہ آيا وہ حاصل بھى ہو گا يا نہيں " انتہى

ديكھيں: اللقاء الشھرى نمبر ( 12 ) سوال نمبر ( 5 ).

مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" اگر كوئى مناسب رشتہ آئے تو ہم يہى نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اس رشتہ كو قبول كرتے ہوئے شادى كر لے، اور كمال طلب كو مدنظر مت ركھے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 60 / 18 ).

ہمارى عزيز بہن آپ عمر كے اس حصہ ميں ابھى راہ پر ہى ہيں ان شاء اللہ، بہت سارے لوگ تو كالج ميں پڑھنے والى عورت كا رشتہ ہى طلب نہيں كرتے انہيں خدشہ ہوتا ہے كہ كہيں لڑكى كے گھر والے اس كى تعليم مكمل ہونے سے قبل رشتہ قبول ہى نہيں كرينگے، حقيقت ميں كالج ميں زير تعليم لڑكى كى مشكلات ميں يہ شامل ہے.

ہمارے خيال ميں اللہ تعالى آپ كے ليے ايسا خاوند ميسر كريگا جسے آپ چاہتى ہيں كيونكہ يہ شادى كى عمر ہے، اور وہ خاوند آپ كے ليے اللہ كى اطاعت ميں علم نافع اور عمل صالح ميں آپ كا ممد و معاون ثابت ہوگا.

يہاں ہم آپ كو ايك اہم بات كہنا چاہتے ہيں كہ علم نافع كے ليے شرط نہيں كہ وہ يونيورسٹى كے ذريعہ ہى حاصل كى جائے تو يہى علم نافع ہوگا، جسے آپ چاہتى ہيں، بلكہ عورت كو تو بغير كسى سند اور سرٹيفكيٹ كے بہت سارا علم نافع حاصل ہو جاتا ہے.

اس ليے جب اللہ تعالى آپ كے ليے كوئى نيك و صالح خاوند ميسر كر دے تو پھر آپ اپنى شادى كى راہ ميں تعليم كو ركاوٹ مت بنائيں، يا آپ اپنى زندگى اور اپنے مستقبل كے خاندان كے ليے، اور اپنے گھر كے واجبات ميں اس تعليم كو زائد بوجھ مت بنائيں، اپنے خاوند اور اپنى اولاد كے ساتھ رہنا اس نظامى تعليم سے زيادہ بہتر ہے.

پھر الحمد للہ اگر اس وقت يہ رہ بھى جائے تو بھى آپ كے ليے ابھى تعليم حاصل كرنے كے بہت سارے مواقع اور وسائل ہيں، يعنى فضائى چينل كے ذريعہ بھى حاصل ہو سكتا ہے، اور كيسٹوں كے ذريعہ بھى اور پھر اليكٹرانك پروگرام كے ذريعہ بھى حاصل كيا جا سكتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى ہميں اور آپ كو ايسے اعمال كى توفيق دے جنہيں وہ پسند كرتا ہے اور جن سے راضى ہوتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب