جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اولاد ميں سے صرف ايك بچے كو ہديہ اور عطيہ دينے كى شروط

112511

تاریخ اشاعت : 08-07-2012

مشاہدات : 3822

سوال

ميرى مالى حالت اچھى ہے ميرے چھ بيٹے اور تين بيٹياں ہيں، اور سب بيٹے بھى الحمد للہ مالدار ہيں، صرف چھوٹا بيٹا تنگ دست ہے، جو دوكان وہ كرتا ہے اسے دينا چاہتا ہوں، اس سلسلہ اس كے سارے بھائيوں سے مشورہ كيا تو انہوں نے كہا ابا جان آپ اپنى مرضى كريں جو چاہيں كريں، بلكہ ان شاء اللہ ہم اپنى جانب سے اس بھائى كى ماہانہ امداد بھى كريں گے.
اس طرح ہم نے اسے اس دوكان كا مالك بنا ديا، ليكن كچھ ايام كے بعد چھوٹے بھائى اور اس كى ايك بہن كے مابين بات چيت ہوئى اور وہ مجھے كہنے لگى: آپ كو اسے اس دوكان كا مالك بنانے كا حق نہيں تھا، اور يہ ظلم ہے.
ليكن اس كے بعد بچى نے اس پر نادم ہوتے ہوئے معذرت بھى كر لى، برائے مہربانى آپ مجھے شافى اور كافى جواب عنايت فرمائيں ميں اس معاملہ ميں بہت پريشان ہوں، كيا ميں بيٹے كى ملكيت ميں ہى وہ سپرماركيٹ رہنے دوں يا كہ اس سے واپس لے لوں تا كہ اپنے دوسرے بيٹوں پر ظلم نہ كر بيٹھوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

والد كو چاہيے كہ عطيہ اور تحفہ دينے ميں سارى اولاد ميں برابرى كرے، باپ كے ليے حلال نہيں كہ وہ كسى ايك بيٹے ك دے اور دوسروں كو محروم ركھے، اولاد كے مابين عدل و انصاف يہ ہے كہ سب ميں برابرى كى جائے، اور لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر ديا جائے.

ا سكا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 22169 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

اگر باپ اولاد ميں سے كسى ايك كو كوئى گاڑى يا دوكان وغيرہ ديتا ہے تو پھر باقى عقل و رشد ركھنے والى باقى اولاد كى رضامندى ہونا ضرورى ہے، ليكن ابھى جنہيں عقل و رشد نہيں انہيں ان كے بھائى جتنا جتنا ضرورى ہے.

اور باقى اولاد كى رضامندى ان كى مرضى اور خوشى سے ہو نا كہ انہيں راضى ہونے پر مجبور كيا جائے، يعنى وہ حقيقتا خوش ہو كر اجازت ديں، اس ليے والد كو انہيں راضى ہونے پر مجبور نہيں كرنا چاہيے، يا ڈرانا دھمكا كر يا تنگ كر كے راضى نہيں كرنا چاہيے.

اور اگر انہيں مجبور كر كے راضى كيا گيا ہو يا پھر وہ شرم كرتے ہوئے موافقت كر ليں تو بھى والد كے ليے اس بھائى كو كچھ دينا حلال نہيں ہوگا.

اس بنا پر اگر آپ كى اولاد بيٹے اور بيٹيوں كى رضامندى ثابت ہو كہ آپ اپنے تنگ دست بيٹے كو عطيہ دے ليں تو پھر اس عطيہ دينے ميں كوئى حرج نہيں، اور اسے دوسروں سے افضل كرنے ميں كوئى مانع نہيں ہوگا.

اگر جس بيٹى نے اعتراض كيا اور پھر معذرت كر لى وہ اپنى مرضى اور دل سے راضى ہوئى ہے تو پھر اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر وہ شرم كرتے ہوئے يا پھر خاندانى مشكلات سے بچنے كے ليے خاموش اور راضى ہوئى ہے تو پھر ا سكا حق ساقط نہيں ہوگا، بلكہ آپ كے ليے واجب اور ضرورى ہے كہ جتنا بيٹے كو ديا ہے اس سے نصف اس بيٹى كو ديں.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص كے چار بيٹے جن ميں سے ايك شادى شدہ اور ملازم ہے اور اس كے پانچ بچے بھى ہيں، والد كے پاس جو مال ہے اس ميں سے كچھ بيٹے كى تنخواہ سے بچا ہوا بھى ہے، يہ علم ميں رہے كہ يہى بيٹا اپنے بيوى بچوں اور والدين اور بھائيوں كا بھى خرچ اٹھاتا ہے؛ كيونكہ سب ايك ہى گھر ميں رہتے ہيں، اب والد چاہتا ہے كہ مال كا پانچواں حصہ اس مذكورہ بيٹے كو اس كے كام كاج اور آمدنى خرچ كرنے كے صلہ ميں دے دے كيا ايسا كرنا صحيح ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے آپ كا فرمان ثابت ہے:

" اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اپنى اولاد كے مابين عدل و انصاف كرو "

متفق عليہ.

لہذا علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق والد كے ليے اولاد ميں سے كسى ايك كو خاص كرنا جائز نہيں؛ ليكن اگر مكلف اور رشد والى اولاد راضى و خوشى اجازت ديں تو ايسا كر سكتا ہے.

اگر والد چاہے تو وہ اس بيٹے كى تنخواہ ميں سے جو اپنے پاس ركھتا ہے وہ اسے آئندہ مستقبل ميں قرض بنا لے يا اپنے پاس امانت ركھ لے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

اور اسے چاہيے كہ وہ اسے كسى اسٹام وغيرہ ميں درج كر دے تا كہ بيٹے كا حق محفوظ رہے، اور وہ اسے كچھ دے گا بھى نہيں بلكہ اس نے بيٹے كا پيسہ اپنے پاس محفوظ ركھا ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 20 / 49 - 50 ).

شيخ رحمہ اللہ سے يہ بھى دريافت كيا گيا:

كيا ميرے ليے صرف كسى ايك بيٹے كو عطيہ دينا جائز ہے كيونكہ باقى بيٹے مالدار ہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

آپ كو حق حاصل نہيں كہ كسى بيٹى يا بيٹے كو كوئى چيز دينے كے ليے خاص كريں، اور باقى اولاد كو نہ ديں، بلكہ آپ ان كے مابين وراثت كے حساب سے عدل كريں، يا پھر كسى كو بھى مت ديں.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" تم اللہ سبحانہ و تعالى كا تقوى اختيار كروا ور اپنى اولاد كے مابين عدل و انصاف كرو "

متفق عليہ.

ليكن اگر اولاد كسى ايك كو خاص كرنے پر راضى ہو جائے تو كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ جب راضى ہونے والے بالغ اور رشد ركھتے ہوں، اور اسى طرح اگر آپ كى اولاد ميں كوئى كوتاہى كرنے والا ہو، كسى عذر اور بيمارى كى بنا پر كمائى كرنے سے عاجز ہو، يا پھر كمائى ميں كوئى علت مانع ہو، اور اس بچے كا باپ نہ ہو اور نہ ہى كوئى بھائى جو اس كا خرچ برداشت كرے، اور اس بچے كو گورنمنٹ كى جانب سے بھى كوئى الاؤنس نہ ملتا ہو جو اس كى ضروريات پورى كر سكے تو آپ كے ليے اس پر بقدر ضرورت خرچ كرنا واجب ہے، ليكن حتى كہ اللہ تعالى اسے غنى و مالدار كر دے " انتہى

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 20 / 50 - 51 ).

اور شيخ رحمہ اللہ سے يہ بھى دريافت كيا گيا:

ميرے والد صاحب كى ملكيت ميں ايك پرانا گھر اچھى لوكيشن پر واقع ہے، والد صاحب اسے ميرے سگے بھائى كے نام كروانا چاہتے ہيں، ميں ايسا كرنے پر راضى ہوں، ليكن ميرى بہنيں بھى ہيں، جب ميں نے والد صاحب سے ان كے حصہ كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے كہا آپ اس سے پريشان مت ہوں! ميں نے ان سے اجازت لے لى ہے.

ليكن مجھے خدشہ ہے كہ كہيں بہنوں نے والد صاحب سے شرما كر موافقت نہ كى ہو، برائے مہربانى اس سلسلہ ميں ہميں شرعى حكم سے مطلع كريں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" والد كے ليے اولاد كے مابين لڑكے اور لڑكيوں ميں وراثت كے حساب سے عدل و انصاف كرنا واجب ہے، اور اس كے ليے كسى ايك بيٹے يا بيٹى كو دوسروں كى رضامندى كے بغير كچھ دينا جائز نہيں، اگر باقى عاقل و بالغ اور رشد ركھتے ہوئے والد كے خوف كے بغير اپنى مرضى سے اجازت ديں تو پھر جائز ہے، اس ميں والد كى دھمكى بھى شامل نہ ہو، اور نہ ہى والد كا خوف شامل ہو.

ہر حالت ميں كسى ايك كو افضل اور بہتر قرار دينا ہى بہتر اور اچھا ہے، اور دلوں كے ليے بھى تسكين كا باعث ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ كا تقوى و ڈر اختيار كرتے ہوئے اپنى اولاد كے مابين عدل و انصاف سے كام لو "

متفق عليہ. انتہى

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 9 / 452 ) اور ( 20 / 51 - 52 ).

اس ليے اگر آپ كا يہ بيٹا مالى ضرورتمند ہے تو آپ كے ليے اس كے نان و نفقہ ميں معاونت كرنے ميں كوئى حرج نہيں اور اس كے ليے آپ باقى اولاد سے اجازت كے محتاج نہيں، اور نہ ہى ان كى رضامندى دركار ہے، كيونكہ عدل يہى ہے كہ اولاد ميں سے جو ضرورتمند اور محتاج ہو اس پر خرچ كيا جائے.

اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 10332 ) اور ( 83984 ) كے جوابات ميں ديكھ سكتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب