بدھ 24 جمادی ثانیہ 1446 - 25 دسمبر 2024
اردو

خاوند اور بيوى كے بيڈ روم ميں كسى مرد يا عورت كا داخل ہونا

113761

تاریخ اشاعت : 06-12-2011

مشاہدات : 6509

سوال

ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ آيا نئى نئى شادى كرنے والے خاوند اور بيوى كے ليے اپنے بيڈ روم ميں سونے كے ليے كسى شخص كو اجازت دينا جائز ہے يا نہيں ؟
مثلا ميرى غير موجودگى ميں ميرى ساس ميرے بستر پر سوتى ہے، مجھے علم ہوا كہ ايسا كرنے سے خاوند اور بيوى كے مابين اختلافات پيدا كرتا ہے، برائے مہربانى اس سلسلہ ميں ميرى معاونت فرمائيں، كيونكہ يہ چيز روزانہ ميرے ذہن ميں رہتى ہے، اور ميں اپنے خاوند كے ساتھ چھوٹى چھوٹى مشكلات كا شكار رہتى ہوں، كيونكہ ميرى ساس مجھے اكثر پريشان كرتى رہتى ہے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بلاشك و شبہ خاوند اور بيوى كا بيڈ روم خاص خصوصيت كا حامل ہے، اور يہ عورت كا حصن حصين اور قلع ہے جو اس كے گھر ميں واقع ہے، اور اس كے خاص چھپنے كى جگہ ہے جہاں وہ اپنا لباس اتارتى ہے، اور اپنے خاوند سے خلوت كرتى ہے، اور يہ كام وہ اس جگہ كے علاوہ كہيں اور نہيں كر سكتى.

اور اس خصوصيت كى اس سے اور بھى تاكيد ہوتى ہے كہ بيوى اپنا مخصوص لباس يہى ظاہر كرتى ہے، اور اسى طرح اس كے بناؤ سنگھار كى اشياء بھى يہيں ہوتى ہيں، اور اسى طرح خاوند اور بيوى كى معاشرت كے متعلقہ امور بھى يہيں ہوتے ہيں جن پر كسى شخص كو مطلع ہونا نہيں چاہيے، اور يہ ازدواجى تعلقات ايك خاص خصوصيت كے حامل ہوتے ہيں.

جو كچھ ہم بيان كر چكے ہيں اصل اصيل تو يہى ہے، اور كسى شخص كو بھى ابتداءا اس كى مخالفت نہيں كرنى چاہيے ليكن اگر كوئى مخصوص حالات پيدا ہو جائيں جس كى بنا پر كسى قريبى رشتہ دار كو اس قلعہ ميں داخل ہونے كى اجازت دينا پڑے، يعنى گھر كى تنگى كى بنا پر، يا پھر كسى ضرورت كى وجہ سے كسى عورت كو وہاں سونے كے ليے اجازت دينى پڑے تو كوئى حرج كى بات نہيں كيونكہ باقى گھر كى بجائے يہ جگہ زيادہ ستر والى ہے، اور يہ اجازت بھى درج ذيل شروط كے ساتھ ہو:

اول:

اس كے ليے شديد قسم كى ضرورت پيش آ جائے.

دوم:

خاوند اور بيوى كا شاٹ لباس ظاہر نہ كيا گيا ہو، اور اسى طرح وہ اشياء جنہيں عام طور پرظاہر كرنے ميں شرم محسوس كى جا تى ہو.

سوم:

جسے اجازت دى جا رہى ہے وہ بااعتماد اور قابل بھروسہ شخص ہو كہ كہيں وہ بيڈ روم كى مخصوص اشياء كے ساتھ كھيلواڑ نہ كرے، يا پھر اس كى حالت دوسرے لوگوں كو نہ بتاتا پھرے.

چہارم:

خاوند يہاں داخل ہونے كى اجازت دے، اور اگر وہ منع كر دے تو پھر اس كى بات مانتے ہوئے وہاں كسى كو نہ داخل ہونے ديا جائے، اور مخالف نہ كى جائے.

اور اسى طرح اگر بيوى ناپسند كرتى ہو تو خاوند كو بھى چاہيے كہ اپنى بيوى كے بيڈروم ميں كسى كو داخل نہ كرے ليكن اگر اسے مجبورى ہو اور وہ داخل ہونے والا قابل اعتماد ہو مثلا اس كى والدہ يا بہن وغيرہ، اور خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى سے اجازت لے تا كہ اس كا دل راضى ہو جائے اور اسے ٹھيس نہ پہنچے.

بہر حال ہم نے جو شروط بيان كى ہيں يہ اجتھادى امور ہيں، اس سے اپنى بيوى كے گھر كى خصوصيت كى حفاظت ہے، اور ازدواجى تعلقات كا خيال كرنا مراد ہے، اور اسے كھيل و تماشہ سے محفوظ كرنا اور بےپردگى سے بچانا ہے، اور راز دارى كو قائم ركھنا مقصود ہے.

امام مسلم رحمہ اللہ نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" عورتوں كے بارہ ميں اللہ كا تقوى اختيار كرو، كيونكہ انہيں تم نے اللہ كى امان سے حاصل كيا ہے، اور ان كى شرمگاہوں كو اللہ كے كلمہ كے ساتھ حلال كيا ہے، اور ان عورتوں پر تمہارا حق ہے كہ جسے تم ناپسند كرتے ہو وہ تمہارے بستر پر مت بيٹھے، اور اگر وہ ايسا كرتى ہيں تو پھر تم انہيں ہلكى سے مار مارو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان عورتوں كے حقوق بھى بيان كيے ہيں، اور جو حقوق ان پر ہيں وہ بھى بيان فرمائے لہذا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ان عورتوں پر تمہارا حق ہے كہ جسے تم ناپسند كرتے ہو وہ تمہارے بستر پر مت بيٹھے "

يعنى وہ اپنى سونے والے بستر پر كسى كو داخل نہ ہونے ديں، كہ آپ ناپسند كرتے ہوں كہ وہ تمہارے بستر پر بيٹھے، واللہ اعلم لگتا ہے يہ ضرب المثل ہے، اور معنى يہ ہے كہ: جسے تم ناپسند كرتے ہو وہ اس كى عزت و تكريم نہ كريں.

يہ تمہارى مخالفت ہے كہ جسے تم ناپسند كرتے ہو وہ اسے بستر پر بٹھا كر يا اسے كھانا پيش كر كے يا كسى اور طرح ان كى عزت و تكريم كريں " انتہى

ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 3 / 126 ).

دوم:

رہا يہ اعتقاد ركھنے كا مسئلہ كہ اگر كوئى شخص ازدواجى بستر پر سوئے تو اس سے خاوند اور بيوى كے مابين مشكلات پيدا ہوتى ہيں يہ جاہليت كا اعتقاد اور خرافت ہے، كسى بھى مسلمان شخص كو ايسا اعتقاد اختيار كرنے سے دور رہنا چاہيے كيونكہ شريعت اسلاميہ ميں اس كى تائيد ميں كوئى دليل نہيں ملتى، اور فى الواقع اس كى تصديق نہيں ہوتى.

سوم:

آپ كے خاوند اور ساس كے ساتھ مشكلات كے بارہ ميں عرض ہے كہ:

يہاں حكمت سے معاملات كو حل كرنے كى ضرورت ہے كہ آپ حسن تصرف اختيار كريں، اور اپنى ساس سے محبت و مودت قائم كر كے اپنے خاوند كى رضا و خوشى حاصل كرنے كى كوشش كريں، اور حسن تعامل كر كے اپنى ساس كى محبت و الفت كرنے كى كوشش كريں، اور اس كے اسے كوئى نہ كوئى چيز بطور ہديہ اور تحفہ ديں، اور اس سے اچھى كلام كريں كيونكہ اچھى بات اور حسن تصرف دونوں ايسى چيزيں ہيں جو ايك آزاد شخص كو بھى غلام بنا ديتى ہيں.

اور اپنى ساس كا آپ كو پريشان كرنے كو آپ صبر و تحمل سے برداشت كرتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالى سے اجروثواب كى نيت ركھيں، اور اپنے خاوند كى خوشى كے ليے اسے برداشت كر ليں، اميد ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ اور آپ كى ساس كے مابين محبت و مودت اور الفت پيدا كر دےگا اور اپنے خاوند كے حقوق كى ادائيگى ميں اللہ سبحانہ و تعالى سے مدد و تعاون طلب كريں، اور تكليف برداشت كر كے صبر سے كام ليں، اور تنگى كے بعد آسانى اور تنگى كے بعد خوشى كا اتنظار كريں.

ساس سے محبت نہ ہونے كے اسباب اور ساس اور بہو كے مابين پيدا ہونے والى مشكلات اور ان كا حل اور علاج معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 84036 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب