اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مختلف علاقوں میں جمعہ کا وقت مختلف ہونے کی صورت میں جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی بھی متاثر ہوگی؟

114609

تاریخ اشاعت : 04-09-2014

مشاہدات : 3937

سوال

میں جمعہ کے دن آخری لمحات میں قبولیت کی گھڑی کے بارے میں کس طرح یقین کر سکتا ہوں! چونکہ میں تو مثال کے طور کویت میں رہتا ہوں، جبکہ امارات میں ہم سے آدھا گھنٹہ قبل آذان ہوتی ہے، اور سعودیہ میں ہم سے آدھا گھنٹہ بعد میں آذان ہوتی ہے، تو بیک وقت قبولیت کی گھڑی کیسے ممکن ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کے بارے میں سوال نمبر: (112165) میں تفصیلی گفتگو گزر چکی ہے، اور یہ وقت بہت تھوڑا سا وقت ہے جو کہ جمعہ کی آذان سے لیکر نماز مکمل ہونے تک، اور عصر کے بعد سے لیکر سورج غروب ہونے تک جاری رہتا ہے، جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس گھڑی کی تعیین کے بارے میں کہے گئے اقوال میں سے انہی دو اقوال کو راجح قرار دیا ہے۔

دوم:

بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف علاقوں میں نمازوں کے اوقات مختلف ہونے کے بارے میں بخوبی جانتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبولیت کی گھڑی سے مراد یہ تھی کہ دعا کی یہ گھڑی ہر علاقے کے اعتبار سے مختلف ہوگی، بلکہ ہر مسجد کے اعتبار سے الگ ہوگی، کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ ایک ہی علاقے میں جمعہ کی نماز کا وقت مختلف ہو۔

چنانچہ شہاب الدین رملی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ذہن نشین رہےکہ: خطبہ کا وقت مختلف علاقوں میں الگ الگ ہوسکتا ہے، بلکہ ایک ہی علاقے میں مختلف ہوسکتا ہے، تو ظاہر یہی ہے کہ : جس جگہ بھی خطیب منبر پر بیٹھ جائے گا وہاں قبولیت کی گھڑی شروع ہوجائے گی اور نماز تک جاری رہے گی"انتہی

" نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج " ( 2 / 342 )

رملی رحمہ اللہ نے جو بات بیان کی ہے متعدد علمائے کرام بھی اسی کے قائل ہیں، اور یہ ایسا مفہوم ہے جس کے علاوہ کوئی اور مفہوم درست نہیں ہوسکتا، رملی رحمہ اللہ نے اس کے بعد اپنی کتاب میں جو اس گھڑی کے بارے میں احتمال ذکر کیا ہے کہ کچھ علاقے کے لوگوں کو یہ گھڑی مل سکتی ہے، اور کچھ لوگوں کو نہیں مل سکتی، یہ احتمال درست موقف سے کوسوں دور ہے؛ کیونکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ گھڑی کچھ لوگوں کیلئے ہوسکتی اور کچھ لوگوں کیلئے نہ ہو، اور اسی کو ابن حجر ہیتمی شافعی نے درست موقف سے بعید ، اور غلط قرار دیا ہے۔

ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

یہ صحیح ہے کہ قبولیت کی گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے، تو کیا یہ ہر خطیب کیلئے الگ ہوگی؟ یا نہیں؟ کیونکہ خطبہ جمعہ کے اوقات مختلف ہوتے ہیں، تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قبولیت کی گھڑی بھی متعدد بار آئے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"میرے دل میں کئی سالوں سے یہ بات آتی تھی، یہاں تک کہ میں نے ناشری رحمہ اللہ کو دیکھا کہ انہوں نے کچھ سے یہ نقل کیا ہے کہ: "اس سے یہ لازم آتا ہے کہ قبولیت کی گھڑی کچھ لوگوں کیلئے کوئی اور ہو، اور کچھ لوگوں کیلئے کوئی اور گھڑی ہو"

اور یہ بات واضح طور پر غلط ہے،اور انہوں نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے۔ اور اس میں ان سے مزید بحث کی جاسکتی ہے ۔

یہی وجہ ہے ہ کچھ متأخرین کہتے ہیں کہ: قبولیت کی گھڑی ہر خطیب اور اسکے سامعین کیلئے الگ ہے، جو کہ خطیب کے منبر پر بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک جاری رہتی ہے، جیسے کہ حدیث میں صحیح ثابت ہے، چنانچہ اس گھڑی کے بارے میں احادیث ثابت ہونے کے بعدعقل کا کوئی عمل دخل نہیں ہے"انتہی

" الفتاوى الفقهية الكبرى " ( 1 / 248 )

شرعی نصوص سے دلیل یہ ہے کہ اِن نصوص نے نمازیوں کے مطابق قبولیت کی گھڑی بتلا دی ہے، جبکہ اس گھڑی کی حد بندی کے بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔

اس گھڑی کا حکم دیگر بہت سے احکام سے ملتا جلتا ہے، مثال کے طورپر:

* رات کی آخری تہائی میں اللہ تعالی کے نازل ہونے کا وقت، اور اس وقت سے متعلقہ فضائل۔

*نماز فجر کے بعد بیٹھنے کی فضیلت، اور سورج طلوع ہونے کے بعد دو رکعت پڑھنا، یہ بھی مساجد اور علاقوں کے اعتبار سے مختلف ہوگا۔

* چاشت کی نماز کیلئے افضل وقت بھی اسی میں شامل ہے، چنانچہ کسی علاقے میں گرمی جلدی زیادہ ہوجاتی ہے تو وہاں اسی وقت میں چاشت کی نماز ادا کرنا افضل ہوگا، لیکن دیگر علاقوں میں اس وقت تک اگر گرمی زیادہ نہ ہوگی تو وہاں چاشت کی نماز کا افضل وقت ابھی شروع نہیں ہوگا، بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دیگر علاقوں میں ابھی رات ہی ہو! اسکے علاوہ اور بھی بہت سے اسی طرح کے مسائل ہیں، جنکی یہاں مثال دی جاسکتی ہے۔

بلکہ ان سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ تمام نمازوں کے اوقات بھی اسی طرح ہیں، سحری و افطاری کے اوقات بھی ایسے ہی ہیں، جو کہ ہر علاقے اور ملک کے اعتبار سے مختلف ہیں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب