سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

عرفى شادى كرنا اور والد كا بيٹے كى شرعى شادى ميں تاخير كرنا

114745

تاریخ اشاعت : 07-01-2010

مشاہدات : 6265

سوال

ميرے والد صاحب ميرى منگيتر كے ساتھ شادى كرنے ميں ركاوٹ بن رہے ہيں ان كا كہنا ہے كہ پہلے تعليم مكمل كرو اور پھر شادى كرنا، ميرا يہ آخرى تعليمى سال ہے، اور ميں ملازمت بھى كرتا ہوں اور ميرى ماہانہ آمدنى بھى ميرے ليے كافى ہے، مجھے كيا كرنا چاہيے، ميں انتظار نہيں كر سكتا، اور اس ليے بھى كہ ميں نے اپنى منگيتر سے عرفى شادى كر ركھى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

وہ عرفى شادى جو ولى كى اجازت كے بغير خفيہ طور پر ہوتى ہے باطل ہے، صحيح نہيں، چاہے اس كے كاغذات بھى لكھے جائيں، اور دو گواہ بھى ہوں، كيونكہ عقد نكاح صحيح ہونے كے ليے عورت كے والى كى موافقت شرط ہے.

ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا عورت اپنے ولى كى اجازت كے بغير شادى كر سكتى ہے ؟

تو كميٹى كا جواب تھا:

" شادى صحيح ہونے كى شروط ميں ولايت شرط ہے، چنانچہ عورت كے ليے ولى كے بغير شادى كرنا جائز ہيں، اور اگر وہ بغير ولى كے شادى كرتى ہے تو اس كا نكاح باطل ہے؛ اس كى دليل ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ كى روايت كردہ يہ حديث ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں "

اور اس ليے بھى كہ سليمان بن موسى نے زہرى سے اور وہ عروہ سے اور وہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو عورت بھى ولى كى اجازت كے بغير نكاح كرتى ہے تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے اور اگر اس سے دخول كر ليا تو اس كو مہر دينا ہو گا كيونكہ اس نے اس كى شرمگاہ كو حلال كيا ہے، اور اگر وہ آپس ميں جھگڑيں تو جس كا ولى نہيں اس كا ولى حكمران ہو گا "

اسے نسائى كے علاوہ باقى پانچ نے روايت كيا ہے، اور دوسرى روايت كو ابو داود الطيالسى نے بيان كيا ہے جس كے الفاظ يہ ہيں:

" ولى كے بغير نكاح نہيں، اور جس عورت نے بھى ولى كى اجازت كے بغير نكاح كيا اس كا نكاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے اور اگر اس كا ولى نہ ہو تو جس كا ولى نہيں اس كا حكمران ولى ہو گا "

امام ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس ميں كسى بھى صحابى سے اختلاف معلوم نہيں " انتہى

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن منيع.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 141 - 143 ).

اس بنا پر اگر تو يہ چيز آپ ميں واقع ہو چكى ہے تو آپ كے ليے فورى طور پر عليحدگى ضرورى ہے، اور آپ دونوں كے مابين عقد نكاح باطل ہے، اور آپ كو اس سے توبہ و استغار كرنى چاہيے.

اور اگر آپ معاملہ كو سدھارنا چاہتے ہيں: تو آپ كو شرعى طريقہ پر عمل كرتے ہوئے صحيح شادى كرنا ہو گى، اور آپ كے ليے اس عورت كو اس كے ولى سے مانگنا ہو گا، اگر وہ آپ سے شادى ميں موافق ہو اور گواہ پائے يا اعلان كر دے تو عقد نكاح ہو جائيگا اور صحيح ہو گا.

اور آپ كو چاہيے كہ آپ لوگوں كى عزت سے مت كھيليں ايسا كرنے سے اجتناب كريں، اور بچ كر رہيں كہ كہيں اللہ عزوجل آپ كو آپ كى عزت ميں سزا نہ دے دے، اور جس چيز كے ليے آپ خود راضى نہيں اس كو لوگوں كے ليے بھى مت كريں كيونكہ شريعت اسلاميہ نے ايسا كرنے سے منع كيا ہے اور اجتناب كرنے كا حكم ديا ہے.

اور والدين كے ليے بھى حلال نہيں كہ وہ اپنى اولاد چاہے بيٹا ہو يا بيٹى كى عفت و عصمت ميں روڑے اٹكائيں، اور والدين كو اپنى اولاد كے متعلق جس كا سب سے زيادہ اہتمام كرنا چاہيے اس ميں ان كے دين كى حفاظت، اور ان كى عزت اور عفت و عصمت كى حفاظت شامل ہے.

اور اگر كوئى ايسا شخص جو صاحب اخلاق اور ديندار ہو آ كر اس سے بيٹى كا رشتہ طلب كرے تو اس كو اس كى موافقت ميں دير نہيں كرنى چاہيے، بلكہ اگر ممكن ہو سكے تو اس كى اس ميں معاونت كرے، كيونكہ جو شخص آپ كى عزت كو محفوظ بناتا ہے وہ اس كے لائق ہے كہ اس كى معاونت كى جائے.

اور اگر آپ كا بيٹا آپ سے شادى كرنے كا كہہ كر عفت و عصمت كى حفاظت كرنا چاہتا ہے تو آپ كے ليے اسے اس سے منع كرنا حلال نہيں جس سے وہ اپنى آنكھ اور شرمگاہ كو محفوظ بنانا چاہتا ہے، يہ نہ ہو كہ اگر آپ اس كى شادى نہ كريں تو وہ غلط راہ پر چل كر گناہ و منكرات ميں پڑ جائے.

اور اگر آپ تعليم مكمل ہونے تك صبر نہيں كر سكتے ـ جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے ـ اور آپ كو حرام ميں پڑنے كا خدشہ ہے اور آپ اپنے والد كو شادى كرنے پر راضى و مطمئن نہ كر سكيں تو آپ شادى كر ليں چاہيں آپ كے والد اس ميں راضى نہ بھى ہوں، اور آپ اپنے والد كى رضا كو اللہ كى معصيت و نافرمانى پر مقدم نہ كريں. ليكن لڑكى اپنے والد اور ولى كى اجازت كے بغير شادى نہيں كر سكتى.

مزيد اہميت كے پيش نظر آپ سوال نمبر ( 46532 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں، كيونكہ يہ آپ اور آپ كے والد كے ليے بہت اہميت كے حامل ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب