جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

گھر سربراہ اللہ اور دين پر سب و شتم كرے تو گھر والے اور اولاد كيا كريں ؟

114779

تاریخ اشاعت : 18-11-2008

مشاہدات : 7256

سوال

ايك شخص اللہ كے ساتھ كفر كرتا ہے، اور كفر كلمات كہتے ہوئے باغيجہ ميں نكل كر كہتا ہے جب ميں كفر كروں تو آسمان ديكھنا چاہتا ہوں، اس كا اعتقاد ہے كہ عرب ايسا معاشرہ ہے جو زندہ رہنے كے قابل نہيں، اور يورپى لوگ ان سے افضل ہيں اور حج كو مال اسراف كرنا شمار كرتا ہے، اور كعبہ پتھروں كا ايك ڈھير ہے اور لوگ اس كے گرد چكر لگاتے ہيں، اس طرح كے دوسرے كفريہ كلمات كہتا ہے جو ميں زبان سے ادا كرنے سے قاصر ہوں، جب اولاد اسے ايسا كرنے سے روكے تو وہ اور بھى زيادہ كفريہ كلمات بكتا ہے، اور جب وہ اسے كچھ نہ كہيں تو ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، وہ استغفار نہيں كرتا بلكہ كہتا ہے تم نے مجھے غصہ دلا ديا تھا، ليكن اس كے باوجود نماز روزہ كى ادائيگى كرتا ہے! اس كے گھر والے اللہ سے ڈرتے ہيں، اور انہيں ڈر ہے كہ والد كے كفريہ كلمات كى بنا پر كہيں اللہ كا عذاب ان پر بھى نازل نہ ہو جائے، اگر وہ كفر كرے ليكن اس كے باوجود نماز روزہ كى ادائيگى كرتا ہو تو كيا بيوى اس سے طلاق حاصل كر لے ؟
اور اگر گھر ميں كوئى بھى مشكل پيش آئے اور والد كفر پر مصر ہو تو اولاد كيا كرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

رسول كريم صلى اللہ وسلم نے سچ فرمايا ہے:

" اللہ تعالى سے زيادہ حلم و بردبارى والا كوئى نہيں وہ سب و شتم سنتا ہے اور لوگ اس كى اولاد كا دعوى كرتے ہيں ليكن اللہ انہيں پھر بھى روزى عطا كرتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6099 ).

اور سب و شتم كرنے والے پر اللہ تعالى كا حلم و بردبارى نہ ہو تو وہ انہيں جلد سزا دے، مثلا وہ انہيں مسخ كر كے خنزير اور بندر بنا دے، يا ان كى زبانيں جلا كرراكھ كردے، يا ان كى عقليں سلب كر لے اور راستوں ميں گھومتے پھريں اور انہيں معلوم ہى نہ ہو كہ وہ كيا كر رہے ہيں.

يہ سب اللہ كى نعمتيں ہيں جو اللہ نے اپنے فضل و كرم سے اپنے بندوں پر كى ہيں، چاہے تو وہ يہ نعمتيں ان سے روك لے ليكن اللہ سبحانہ و تعالى انہيں مہلت اور ڈھيل دے رہا ہے، ہو سكتا ہے ان ميں كوئى توبہ كر كے اپنے پروردگار كى طرف رجوع كر كے واپس پلٹ آئے.

يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اس طرح كے شخص كا حكم جو سب و شتم كرے اور دين سے بغض ركھے وہ دين سے خارج ہے اور وہ اس سب و شتم كى بنا پر مرتد ہو جائيگا، اس كے سارے نيك و صالح اعمال اكارت اور ضائع ہو جائينگے، اور اس كا عقد نكاح بھى فسخ ہو جائيگا، اس ليے اس كى مسلمان بيوى اس پر حرام ہو جائيگى، اور اگر وہ اسى حالت ميں مر جائے اور اسلام ميں داخل نہ ہوا ہو تو اسے نہ تو غسل ديا جائيگا، اور نہ ہى اسے كفن پہنايا جائيگا، اور نہ ہى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، اور نہ مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائيگا، نہ وہ وارث ہو گا اور نہ ہى اس كا كوئى وارث ہو گا.

اور اس كى نماز روزہ كى ادائيگى كا كوئى فائدہ نہيں، يہ اس كى سفارش نہيں كريگى اور نہ ہى مانع ہو گى، اللہ كے ہاں اس كى نماز كوئى سفارش نہيں كريگى، اور مرتد ہونے كے احكام ميں بھى نماز كوئى مانع نہيں ہو گى، اور اللہ عزوجل كے ہاں اس كى نماز كوئى فائدہ نہيں ديگى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى اسے اكارت كر ديگا، اور باقى سارے اعمال صالحہ بھى ضائع ہو جائينگے، اور يہ نماز اس كے مرتد ہونے اور مرتدين ميں شامل ہونے سے كوئى مانع نہيں ہو گى.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر كوئى انسان اللہ پر سب و شتم كرے، يا اللہ كےدين پر سب و شتم كرے، يا اللہ كےدين يا جنت يا جہنم كا استہزاء اور مذاق اڑائے تو اس كا نماز ادا كرنا اور روزہ ركھنا اسے كوئى فائدہ نہيں ديگا، كيونكہ جب نواقض اسلام ميں سے كوئى ناقض يعنى دين كو ختم كرنے والا كوئى عمل پايا جائے تو اس كےسارے اعمال ضائع ہو جائينگے، ليكن اگر وہ توبہ كر لے "

يہ ايك اہم قاعدہ اور اصول ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر ( بالفرض ) يہ حضرات بھى شرك كرتے تو ان كے اعمال ضائع كر ديے جاتے الانعام ( 88 ).

اور ايك مقام پر ارشاد ربانى ہے:

يقينا تيرى طرف بھى اور تجھ سے قبل ( تمام انبياء ) كى طرف بھى وحى كى گئى ہے كہ اگر تو نے شرك كيا تو بلاشبہ تيرا عمل ضائع ہو جائيگا، اور يقينا تو نقصان اٹھانے والوں ميں سے ہو جائيگا، بلكہ تو اللہ ہى كى عبادت كر اور شكر كرنے والوں ميں سے ہو جا الزمر ( 65 - 66 ). انتہى

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 28 / 216 - 217 ).

شيخ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال بھى دريافت كيا گيا:

ميں نے كچھ مسلمان علماء كرام سے سنا ہے كہ اگر آدمى دين پر سب و شتم كرے تو اس كى بيوى كو طلاق ہو جاتى ہے اور اس كے ليے توبہ و استغفار كرنا اور نيا عقد نكاح كرنا لازم ہے اور يہ چيز كثرت سے ہوتى ہے، خاص كر شديد غصہ كى حالت ميں اس ليے يہ بات كہاں تك صحيح ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" دين پر سب و شتم كرنے سے انسان اسلام سے مرتد ہو جاتا ہے، اور اسى طرح قرآن مجيد اور رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كرنا بھى نعوذ باللہ اسلام سے اتداد اور ايمان كے بعد كفر ہے، ليكن يہ عورت كے ليے طلاق كا باعث نہيں، بلكہ بغير طلاق كے ہى خاوند اور بيوى كے درميان تفريق كر دى جائيگى، تو يہ طلاق نہيں بلكہ عورت اس پر حرام ہو جائيگى؛ كيونكہ عورت مسلمان ہے اور وہ كافر ہو چكا ہے، وہ عورت اس پر حرام ہے حتى كہ توبہ كر لے، اگر توبہ كر لے اور عورت عدت ميں ہو تو بغير كسى چيز كے وہ اس كے عقد ميں واپس آ جائيگى يعنى جب وہ شخص توبہ كر كے اللہ كى طرف رجوع كر لے تو عورت اس كو واپس مل جائيگى.

ليكن اگر عدت ختم ہو گئى اور اس نے توبہ نہ كى تو عورت جس سے چاہے نكاح كر سكتى ہے، اور يہ طلاق كے درجہ ميں ہو گا، يہ نہيں كہ يہ طلاق ہے، بلكہ طلاق كى طرح ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے مسلمان عورت كافر پر حرام كى ہے اور اگر وہ عدت كے بعد توبہ كرے اور اس سے شادى كرنا چاہے تو كوئى حرج نہيں، ليكن احتياط اسى ميں ہے كہ عقد نكاح كى تجديد كرے؛ تا كہ علماء كے اختلاف سے بچا جا سكے، وگرنہ بعض اہل علم كى رائے ہے كہ اگر عورت اسے اختيار كرتى ہے تو بغير تجديد نكاح كے حلال ہے، اور عورت نے عدت كے بعد كسى اور سے شادى نہ كى ہو اور اپنى حالت پر باقى رہے تو بغير تجديد كے ہى صحيح ہے.

ليكن اگر نيا عقد نكاح كرے تو يہ اولى اور بہتر ہے؛ تا كہ جمہور اہل علم كے اختلاف سے نكلا جا سكے، اكثر اہل علم كہتے ہيں جب عورت عدت سے نكل جائے تو وہ بائن ہو جاتى ہے اور اس مرد كے ليے وہ اجنبى ہو جائيگى نئے نكاح كے بغير اس كے ليے حلال نہيں، اس ليے اولى اور بہتر اور احتياط اسى ميں ہے كہ وہ نيا عقد كر لے، يہ اس صورت ميں ہے جب وہ اس كے توبہ كرنے سے قبل عدت ختم كر بيٹھے.

ليكن اگر وہ عدت ميں ہى توبہ كر لے تو وہ اس كى بيوى ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسلام قبول كرنے والوں كى بيويوں كو عدت ختم ہونے سے قبل ان كے نكاح ميں ہى رہنے ديا تھا " انتہى

فتاوى نور على الدرب ( 1 / 106 - 107 ) طبع دار الوطن

اور دينى شعار ميں سے كسى بھى شعار كا استھزاء كرنا اور مذاق اڑانا بھى دين سے ارتداد ہے، اور اہل سنت علماء كے ہاں اللہ تعالى اور اس كے رسول اور دين پر سب و شتم كرنے والے كے حكم ميں كوئى اختلاف نہيں، اور اسى طرح اللہ كے دين كے شعار ميں سے كسى بھى چيز كے ساتھ استھزاء كرنا اور مذاق اڑانے كے حكم ميں بھى كوئى اختلاف نہيں.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" دين اسلام پر سب و شتم كرنے والے كا حكم يہ ہے كہ وہ كافر ہے؛ كيونكہ دين پر سب و شتم كرنا اور اس كا استھزاء كرنا اور مذاق اڑانا اسلام سے ارتداد اور اللہ عزوجل اور اس كے دين كے ساتھ كفر ہے.... انتہى

ديكھيں: فتوى كا تتمہ سوال نمبر ( 42505 ) كا جواب.

اور اللہ سبحانہ و تعالى پر سب و شتم كرنے كے حكم كے متعلق تفصيل جاننے كے ليے سوال نمبر ( 71174 ) اور ( 79067 ) اور ( 14305 ) اور ( 65551 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كا حكم معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 22809 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

دوم:

يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اس كا يہ گمان ركھنا كہ بچوں نے اسے غصہ دلا ديا تھا يہ كوئى شرعى عذر نہيں بلكہ يہ تو اللہ تعالى كى انتہائى توہين پر دلالت كرتا ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ جو شخص غصہ ميں آئے اور اس كى عقل پر پردہ پڑ جائے تو سب و شتم كے ليے اپنے رب اور پروردگار كے علاوہ اسے كوئى اور ياد كيوں نہيں آتا! اسے گالى نكالنے اور سب و شتم كرنے كے ليے اپنى ماں كيوں نہيں ياد آتى ؟! سب و شتم اور گالياں نكالنے كے ليے اسے اپنا حكمران كيوں نہيں ياد آتا ؟!

اس ليے كہ يہ سب اس كے محبوب تھے، يا اس كے ہاں ان كى تعظيم تھى، يا وہ ان سے خوفزدہ تھا تو غصہ كى حالت ميں بھى گالى نكالنے كے ليے وہ اس كے ذہن ميں بھى نہ آئے، يہ اس بات كى دليل ہے جو ہم كہہ چكے ہيں، وہ يہ كہ انہوں نے اپنے پروردگار پر سب و شتم اس ليے كيا كہ ان كے دل ميں جو گندگى اور كجى تھى اسے باہر نكال سكيں، اور اللہ رب العالمين كى توہين كريں.

آپ پر واجب اور ضرورى ہے كہ آپ اس سے اس وقت تك بائيكاٹ كريں جب تك وہ دين اسلام كى طرف واپس نہيں پلٹ آتا، اور آپ كے ليے حلال نہيں كہ آپ اسے اپنے نزديك آنے ديں وہ آپ كا خاوند نہيں رہا، الا يہ كہ وہ اپنے دين ميں واپس پلٹ آئے، اور اس كى اولاد كے ليے يہى ہے كہ وہ اس سے مرتد والا معاملہ كريں اور اسے سلام كرنے ميں پہل نہ كريں، اور نہ ہى اس سے محبت و الفت ركھيں، ليكن اس كے باوجود وہ اس سے نرم رويہ كے ساتھ دعوت ضرور ديں، اور اسے دين كى دعوت دينے ميں حسن خلق كا مظاہرہ كريں، ہو سكتا ہے وہ توبہ كرتے ہوئے دين كى طرف واپس پلٹ آئے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 96576 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب