الحمد للہ.
اول:
كسى بھى مسلمان عورت كے ليے اپنے خاوند سے بغير كسى ايسے سبب كے جو طلاق مباح كرتا ہو طلاق كا مطالبہ كرنا جائز نہيں، اور اگر وہ ايسا كرتى ہے تو وہ بہت شديد قسم كى وعيد كى مستحق ٹھريگى.
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى بغير كسى تنگى كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
دوم:
جو عورت كسى سبب مثلا خاوند كے برے افعال يا شديد زدكوب كرنے كى وجہ سے خاوند كے ساتھ رہنا ناپسند كرتى ہو تو اسے طلاق طلب كرنے كا حق حاصل ہے، اور وہ مكمل مالى حقوق كى مستحق ہوگى.
اور جو عورت خاوند كى جانب سے سبب كے بغير اپنے خاوند كے ساتھ رہنا ناپسند كرے، اور وہ خاوند كو برداشت نہ كر سكتى ہو اور اسے خدشہ ہو كہ وہ خاوند كى اطاعت نہ كر كے گناہ كر بيٹھےگى تو بھى اس كے ليے خلع كر كے خاوند سے عليحدگى طلب كرنے ميں كوئى حرج نہيں ہے، اور وہ طلاق كا مطالبہ نہيں كر سكتى بلكہ خلع ہى كريگى، اس ليے جو خاوند طلب كرے مثلا مہر كى واپسى يا اس سے زيادہ يا كم تو بيوى كو ادا كر كے اس سے عليحدہ ہونے كا حق حاصل ہوگا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يہ طلاقيں دو مرتبہ ہيں، پھر يا تو اچھائى سے روكنا ہے يا عمدگى كے ساتھ چھوڑ دينا ہے، اور تمہارے ليے حلال نہيں كہ تم نے انہيں جو دے ديا ہے اس ميں سے كچھ بھى واپس لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ دونوں كو اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكنے كا خوف ہو اس ليے اگر ڈر ہو كہ يہ دونوں اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكيں گے تو عورت رہائى پانے كے ليے كچھ دے ڈالے اس ميں دونوں پر كوئى گناہ نہيں، يہ اللہ كى حديں ہيں تم ان سے تجاوز مت كرو، اور جو كوئى بھى اللہ كى حديں تجاوز كريگا تو وہى ظالم ہيں البقرۃ ( 229 ).
چنانچہ اس آيت ميں بيان ہوا ہے كہ اگر خاوند اپنى بيوى كو طلاق دينے كى رغبت ركھتا ہو تو اس كے ليے بيوى كے مہر سے كچھ لينا حرام ہے، اس ميں خلع لينے كا جواز پايا جاتا ہے، كہ عورت اپنے آپ كو خاوند سے چھڑانے كے ليے اتنا مال ادا كر دے جس پر خاوند اور بيوى دونوں كا اتفاق ہو جائے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 104534 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
بيوى يا كسى عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ ان وضعى اور غير شرعى قوانين كو جو شريعت الہى كے مخالف ہيں كو موقع غنيمت اور اپنے ليے فرصت جانے تا كہ وہ كچھ حاصل كر سكے جس كى وہ مستحق ہى نہ تھى.
اور پھر مسلمان پر تو واجب ہے كہ وہ اپنے سب حالات ميں شرعى احكام كے مطابق فيصلہ كروائے، اور جو مال يا فائدہ بھى اسے اللہ كى مشروع كردہ شريعت كے خلاف حاصل ہو وہ اس كے ليے حرام ہے، وہ اس كى ملكيت نہيں بن سكتى اور نہ ہى اس كے ليے اس سے فائدہ حاصل كرنا حلال ہو گا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
كيا آپ نے انہيں نہيں ديكھا ؟ جن كا دعوى تو يہ ہے كہ جو كچھ آپ پر اور جو كچھ آپ سے پہلے اتارا گيا ہے اس پر ان كا ايمان ہے، ليكن وہ اپنے فيصلے غير اللہ كى طرف لے جانا چاہتے ہيں، حالانكہ انہيں حكم ديا گيا ہے كہ شيطان كا انكار كريں، شيطان تو يہ چاہتا ہے كہ انہيں بہكا كر دور ڈال دے النساء ( 60 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
سو تيرے پروردگار كى قسم! يہ مومن نہيں ہو سكتے جب تك كہ تمام آپس كے اختلاف ميں آپ كو حاكم نہ مان ليں، پھر جو فيصلہ آپ ان ميں كر ديں ان سے اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں النساء ( 65 ).
اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
كيا يہ لوگ پھر سے جاہليت كا فيصلہ چاہتے ہيں يقين ركھنے والے لوگوں كے ليے اللہ تعالى سے بہتر فيصلے اور حكم كرنے والا كون ہو سكتا ہے ؟ المآئدۃ ( 50 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
مسلمانوں كے آپس ميں جھگڑے مثلا طلاق اور تجارتى امور يا اس طرح كے دوسرے معاملات كا فيصلہ امريكى عدالتوں اور قوانين كے مطابق كروانے كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" مسلمان شخص كے ليے ان وضعى اور غير شرعى قوانين كے مطابق فيصلہ كروانا جائز نہيں، ليكن ضرورت كے وقت جب شرعى عدالت نہ ہو تو پھر اس شرط كے ساتھ فيصلہ كروايا جا سكتا ہے كہ اگر اس كے حق ميں فيصلہ ہو بھى جائے اور وہ اس كا حق نہ ہو تو يہ حق لينا جائز نہيں ہوگا " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد العزيز آل شيخ.
الشيخ صالح الفوزان.
الشيخ بكر ابو زيد.
فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 502 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 4044 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں، اس ميں كسى كافر جج يا پھر كسى عقلمند امام جو كہ عالم نہ ہو سے فيصلہ كروانے كے متعلق شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كى بہت ہى اہم كلام منقول ہے.
اس بنا پر اس خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنى بيوى كو نصيحت كرے كہ وہ شرعى فيصلہ كروائے، اور وہ اسے اس كے پورے حقوق ادا كريگا، اور اگر وہ شرعى فيصلہ كروانے سے انكار كر كے اس غير شرعى قانون كے مطابق ہى فيصلہ كروانے پر مصر ہو تو پھر اس كے سامنے يہى ہے كہ وہ اسے شرعى طلاق دے دے، اور پھر اگر اس پر ظلم ہو اور اسے نقصان اٹھانا پڑے اور وہ مالى جرمانہ ادا كرے تو خاوند كو اس پر صبر كرنا چاہيے، اگر اسے دنيا ميں اس كا حق نہيں ملتا، تو كل روز قيامت اسے اس كا حق دلايا جائيگا، جس نے اس پر ظلم كيا اس كى نيكياں اسے دلائى جائينگى.
واللہ اعلم .