جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

ہرایک بیٹے کے نام اکاونٹ کھلوانا چاہتا ہےتا کہ ان کےلیے رقم جمع کرسکے

11505

تاریخ اشاعت : 25-04-2004

مشاہدات : 4151

سوال

میں نےکچھ مال جمع کیا ہے اورمیرے چاربچے ہیں میں چاہتا ہوں کہ ہرایک کے لیے کچھ مال جمع کرلوں ، میں نے اس کی ایک صورت تشکیل دی ہے لیکن اسے آخری نہیں سمجھتا وہ یہ ہے کہ : میں کچھ مال جمع کروں جس سے وہ اپنے تعلیمی اورشادی وغیرہ کے اخراجات پورے کریں میرے ذھن میں یہ سوچ ہے کہ میں ہرایک کے لیے بینک میں علیحدہ علیحدہ اکاونٹ کھلواؤں اوراس میں برابریا کمی وزیادتی کےساتھ رقم جمع کرواتا رہوں ۔
اورایک طرف یہ بھی ہے کہ اس میں میری نیت یہ ہے کہ وہ سارا مال ان کی ملکیت ہو ، لیکن فرض کریں کہ اگر مستقبل میں مجھے کسی وقت گھریلو ضروریات کے لیے رقم کی ضرورت ہوتومیں اسے استعمال کرلوں یہ مشہور قول کے سبب ہے ( میرے نزدیک نہيں کہ میں اسے مقدم کروں )
بچوں کے لیے جمع کردہ مال والد کے حق میں سے ہے ، اوربچے ابھی تک بالغ نہیں ہوئے صرف ایک بچہ بالغ ہے ، مجھے علم ہے کہ ان پیسوں کی زکاۃ مجھے ادا کرنا ہوگی ، میرے سوال یہ ہیں :
میری اس پلاننگ کوکس طرح عملی جامہ پہنانا ممکن ہے تا کہ دین اسلام کے ساتھ بھی متفق ہو؟
اورکیا اوپر بیان کیا گيا طریقہ صحیح ہے ؟
جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے کیا میرے لیے یہ مال استعمال کرنا جائز ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

آپ اپنی اولاد میں سے ہرایک کے لیے علیحدہ علیحدہ اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں عدل وانصاف اوربرابری ہونی چاہیے ، لھذا کسی ایک کودوسرے پرافضلیت نہیں دینی ہوگي نہ توکسی بیٹے کودوسرے بیٹے پراورنہ ہی کسی بیٹی کودوسری بیٹی پر، اوربیٹے کوبیٹی سے ڈبل دینا ہوگا اس معاملہ میں اس مسئلہ پرتنبیہ ضروری اورواجب ہے ۔

اوراگر آپ کوکچھ مال کی ضرورت ہوتوآپ جوکچھ چاہیں لے سکتےہیں لیکن اس میں بھی یہ خیال رکھنا ہوگا کہ باقی ماندہ مال میں سب کے لیے برابری ہونی چاہیے اوربیٹے کوبیٹی سے ڈبل دینا چاہیے اورکسی ایک کودوسرے پرافضلیت نہیں دینی ہوگي ۔

اوراس کے ساتھ ساتھ ہرسال زکاۃ بھی ادا کرنا ہوگي ، اورآپ یہ کوشش کریں کہ کسی ایسے بینک میں اکاونٹ کھلوائيں جوسودی معاملات نہ کرتا ہو ( اگر کوئي بینک ملے ) تا کہ بینک والے اس مال سے اللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی میں تعاون حاصل نہ کرسکیں ۔

ہم اللہ تعالی سے آپ کے لیے توفیق کے طلبگار ہیں ۔ .

ماخذ: الشیخ سعد الحمید