سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

لڑكى كے باپ نے مناسب رشتہ چھوڑ كر دوسرا رشتہ قبول كر ليا

115402

تاریخ اشاعت : 21-06-2011

مشاہدات : 4224

سوال

ميرے ليے ايك بااخلاق اور ديندار شخص كا رشتہ آيا جس كى گواہى قابل اعتماد افراد بھى ديتے ہيں، ليكن ميرے والد نے يہ كہہ كر رشتہ قبول كرنے سے انكار كر ديا كہ يہ دوسرے شہر سے تعلق ركھتا ہے، والد صاحب كى رائے ہے كہ اس شہر كے لوگوں سے بچ كر رہنا چاہيے.
يہ علم ميں رہے كہ ميرے والد صاحب " اللہ انہيں ہدايت دے " برادرى كا واضح تعصب ركھتے ہيں، ہم نے كئى ايك رشتہ داروں كے ذريعہ مطئمن كرنے كى كوشش كى ہے ليكن اس نے ان كى بات سننے سے انكار كر ديا.
اسى دوران ميرے ليے اور بھى كئى رشتے آئے جو والد صاحب كو پسند تھے، ليكن دينى اعتبار سے وہ ميرے مناسب اور كفو كے نہيں تھے، ان سب كا ايك ہى كہنا تھا انہوں نے مجھے يہ كہہ كر مطمئن كرنے كى كوشش كى كہ بيوى اپنے خاوند كى ہدايت كا سبب بن سكتى ہے.
ميرا سوال يہ ہے كہ اگر ميں نے اسى شخص سے شادى كرنے كى رائے اختيار كى تو كيا ميں گنہگار كہلاؤنگى ؟
يہ علم ميں رہے كہ ميرے والد نے قسم اٹھائى ہے كہ اگر انہوں نے موافقت بھى كر لى تو وہ سارى زندگى مجھ پر راضى نہيں ہونگے، برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ ميں كيا كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

عورت كے ولى كو اپنى بيٹى كے ليے اس كے مناسب اور نيك و صالح رشتہ تلاش كرنا چاہيے جو اس كى بيٹى كى عزت اور عفت عصمت اور اس كى اولاد كى حفاظت كرنے والا ہو، كيونكہ حديث ميں بھى يہى وارد ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تمہارے پاس كسى ايسے شخص كا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس كى شادى ( اپنى لڑكى سے ) كر دو، اگر تم ايسا نہيں كروگے تو زمين ميں وسيع و عريض فساد بپا ہو جائيگا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

ولى كے جائز نہيں كہ وہ اپنى ولايت ميں رہنے والى عورت كو مناسب رشتہ آنے پر جس پر لڑكى راضى بھى ہو سے شادى نہ كرنے دے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تو تم انہيں ان كے خاوندوں سے نكاح كرنے نہ روكو جب كہ وہ آپس ميں دستور كے مطابق رضامند ہوںالبقرۃ ( 232 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عضل كا معنى يہ ہے كہ: جب عورت نكاح كا مطالبہ كرے اور رشتہ بھى مناسب اور كفو والا ہو تو اسے شادى سے روك ديا جائے، اور دونوں كى ايك دوسرے ميں رغبت ہو.

معقل بن يسار كہتے ہيں:

ميں نے اپنى بہن كا نكاح ايك شخص سے كيا تو اس شخص نے اسے طلاق دے دى، جب اس كى عدت ختم ہو گئى تو اسى شخص نے ميرى بہن كا رشتہ طلب كيا تو ميں نے اسے كہا:

ميں نے اس كى تيرے ساتھ شادى كى اور اسے تيرے ماتحت كيا اور تيرى عزت و احترام كى تو تم نے اسے طلاق دے دى اور اب پھر تم اس كا رشتہ طلب كرتے ہو، اللہ كى قسم وہ تيرے پاس كبھى واپس نہيں جا سكتى، اور اس شخص ميں كوئى عيب بھى نہ تھا، اور عورت بھى اس كے پاس واپس جانا چاہتى تھى، تو اللہ سبحانہ و تعالى نے يہ آيت نازل فرما دى:

تو تم انہيں نكاح كرنے سے مت روكو .

تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كى شادى كرتا ہوں، راوى بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے اس كى شادى اس شخص كے ساتھ كر دى "

اسے بخارى نے روايت كيا ہے.

چاہے يہ شادى مہر مثل ميں ہو يا اس سے كم ميں، امام شافعى اور ابو يوسف اور محمد كا يہى قول ہے..

اگر عورت نے كسى بعينہ كفو و مناسب شخص كے ساتھ شادى كى رغبت ركھى ہو اور اس كا ولى اس كى شادى كسى دوسرے شخص سے كرے جو اس كا كفو نہ ہو جس سے عورت چاہتى ہے اس سے شادى نہيں كرتا تو وہ عاضل كہلائيگا.

ليكن اگر عورت كسى ايسے شخص سے شادى كا مطالبہ كرتى ہے جو اس كا كفو نہيں تو پھر ولى كو اسے روكنے كا حق حاصل ہے، اس صورت ميں وہ عاضل نہيں كہلائيگا " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 9 / 383 ).

جب يہ ثابت ہو جائے كہ جس شخص سے عورت شادى كرنا چاہتى تھى اور وہ اس كا كفو بھى تھا ليكن ولى نے اس سے شادى نہيں كى تو ولايت اس كے بعد والے عصبہ ولى كو مل جائيگى، اور اگر وہ سب ہى اس كى شادى سے انكار كريں تو عورت كو قاضى كے پاس جانے كا حق حاصل ہے تا كہ وہ اس كى شادى كرے.

ليكن عورت كو ايسا كرنے سے قبل يہ ديكھ لينا چاہيے كہ اس كے نتيجہ ميں كيا خرابياں پيدا ہونگى، ہو سكتا ہے اس كے نتيجہ ميں اس كے والد اور رشتہ داروں اور عورت كے مابين قطع رحمى اور بائيكاٹ ہو جائے، اور يہ بھى احتمال ہے كہ اس كا والد اس كے ليے كوئى اور مناسب اور كفو رشتہ تلاش كر لے.

اس معاملہ كو بات چيت اور افہام و تفہيم اور نصيحت كے ذريعہ حل كرنا چاہيے، اور اس ميں سليم الرائے رشتہ دار كو استعمال كيا جائے، كيونكہ ہو سكتا ہے كہ اس رشتہ كے انكار ميں والد حق پر ہو، اور يہ بھى ہو سكتا ہے غلطى پر ہو.

والد كى اطاعت و فرمانبردارى اور اسے راضى كرنے كى حتى الامكان كوشش كرنى چاہيے، الا يہ كہ والد آپ كى كسى ايسے شخص كے ساتھ شادى كرنے پر اصرار كرے جو كفو اور مناسب نہيں.

ليكن كسى ايسے شخص كے ساتھ شادى كرنا جس كا دين اور اخلاق پسند نہيں اور يہ اميد ركھنا كہ شادى كے بعد وہ صحيح ہو جائيگا، يہ چيز خطرناك ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے اس ميں تبديلى پيدا ہو جائے، اور ہو سكتا ہے تبديلى پيدا نہ ہو اس ليے اس خطرہ كو مول نہيں لينا چاہيے.

بلكہ آپ اپنے والد كو راضى كريں كہ وہ كسى اخلاق اور دين والے شخص كے ساتھ ہى آپ كى شادى كرے، اور آپ صبر و تحمل سے كام ليں، ہو سكتا ہے كوئى ايسا رشتہ آ جائے جسے آپ پسند كريں اور وہ دين و اخلاق والا ہو، اور آپ كے والد بھى راضى ہو جائيں.

اس كے ليے آپ دعا سے معاونت ليں، اور استخارہ كريں اور كثرت سے اعمال صالحہ كريں، كيونكہ اطاعت و فرمانبردارى كے ساتھ نيك و صالح خاوند حاصل كيا جا سكتا ہے، اسى طرح سب فائدہ مند روزياں بھى حاصل كى جا سكتى ہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

جس كسى نے بھى نيك و صالح اعمال كيے چاہے وہ مرد ہو يا عورت اور وہ مومن ہو تو ہم اسے اچھى زندگى مہيا كرينگے اور ان كے اعمال كا اچھا بدلہ ديں گے النحل ( 97 ).

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو نيك و صالح خاوند اور اولاد عطا فرمائے، اور آپ كے والد اور گھر والوں كو ايسے اعمال كرنے كى توفيق نصيب دے جنہيں وہ پسند كرتا ہے اور جن سے وہ راضى ہوتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب