سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

زنا كى حرمت ميں عظيم حكمتيں

115486

تاریخ اشاعت : 17-11-2008

مشاہدات : 11046

سوال

ميرا ايك دوست يہ سمجھنے چاہتا ہے كہ زنا كيوں حرام كيا گيا! ہم دونوں اس ويب سائٹ كى سرچ كرتے رہتے ہيں، ليكن ہميں اس ميں جو كچھ ملا ہے وہ يہى كہ كتاب و سنت ميں كچھ نصوص زنا كے ارتكاب سے منع كرتى ہيں، اور سزا ان كى منتظر ہے، بہر حال كيا آپ كے ليے ممكن ہے كہ آپ ہميں زنا كے عدم ارتكاب كى حكمتيں بتائيں ؟
كيا قرآن مجيد ميں كوئى ايسى مثال ہے جو اس كے حرام ہونے كا سبب بيان كرتى ہو ؟
كچھ اسباب تو واضح ہيں مثلا: معاشرتى بنا ختم كرنا، اور غلط اور فاجر قسم كى عورتوں پيدا ہونا، ليكن كيا قرآن مجيد اور حديث ميں كوئى قصہ ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مومن پر واجب ہے كہ وہ اللہ تعالى كا حكم تسليم كرتے ہوئے اس پر عمل پيرا ہو چاہے اسے اس كى حكمت معلوم ہو يا نہ، اور اسے يہ تسليم كرنا چاہيے كہ اللہ تعالى نے يہ حكم عظيم حكمت كى بنا پر ہى مشروع كيا ہے، جو مصلحت اور لوگوں كى خير و بھلائى كو ثابت، اور ان سے شر و مفاسد كو دور كرتى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

ايمان والوں كا قول تو يہ ہے كہ جب انہيں اس ليے بلايا جاتا ہے كہ اللہ اور اس كا رسول ان ميں فيصلہ كر دے تو وہ كہتے ہيں ہم نے سنا اور مان ليا، يہى لوگ كامياب ہونے والے ہيں النور ( 51 ).

اور اس كے ساتھ .... مومن كے ليے حكمت تلاش كرنے ميں كوئى مانع نہيں تا كہ اس كا اس شريعت كے كامل ہونے پر اور بھى زيادہ يقين ہو جائے، اور يہ كہ يہ حقيقتا اللہ ہى كى جانب سے ہيں، اور تا كہ وہ غير مسلموں سے بحث كر سكے، اور انہيں شريعت اسلاميہ كے حق ہونے پر مطمئن كر سكے.

دوم:

اللہ سبحانہ و تعالى نے زنا قطعى حرام كيا ہے، اور زنا كا مرتكب ہونے والے شخص پر دنيا ميں سزا حد زنا واجب كى ہے، اس كے متعلق ہميں نصوص اور دلائل بيان كرنے كى ضرورت نہيں، كيونكہ يہ سب كو معلوم ہيں، ليكن ہم يہاں زنا كى حرمت كى چند ايك حكمتيں ضرور ذكر كرينگے:

1 - يہ حرمت اس فطرت كے موافق جس پر اللہ تعالى نے لوگوں كو پيدا كيا ہے، كہ عزت و ناموس پر غيرت اور پھر بعض جانور بھى اپنى عزت پر غيرت كھاتے ہيں.

صحيح بخارى ميں عمرو بن ميمون الاودى رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" ميں نے دور جاہليت ميں ايك بندر كو ايك بندريا سے زنا كرتے ہوئے ديكھا، تو سب بندر اكٹھے اس بندريا كے خلاف اكٹھے ہوئے اور اسے رجم كر ديا حتى كہ وہ بندريا مر گئى! "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3849 ).

تو جب بندر اپنى عزت پر غير كھاتے ہيں اور زنا كو قبيح اور برا جانتے ہيں تو پھر ايك انسان اپنى عزت پر غيرت كيوں نہيں كھائيگا ؟

كون سا ايسا مرد ہے جو يہ قبول كرتا ہے كہ اس كى بيوى يا اس كى بيٹى يا اس ماں يا اس كى بہن لوگوں كے ليے مفت سامان عيش بنى رہى، جو بھى ايسا كريگا تو وہ اپنے ليے اس پر راضى ہوا كہ اس نے اپنے آپ كو بعض جانوروں كے مرتبہ سے بھى نيچے كر لليا، جيسا كہ اب كچھ يورپى ممالك ميں پايا جاتا ہے جسے وہ " بيوياں تبديل كرنے كے كلب " كا نام ديتے ہيں!!

2 - نسب مخلوط ہونے سے روكنا: جو كوئى بھى زنا مباح كريگا اس نے اپنى نسل اور اپنے خاندان اور فيملى ميں اسے داخل كرنا مباح كيا جو اس كے خاندان اور فيملى اور نسل ميں شامل نہ تھا، اس طرح وہ اس كے خاندان كے ساتھ وراثت ميں شامل ہو گا، اور ان كے ساتھ محرم والے معاملات كريگا حالانكہ وہ ان كا محرم نہ تھا.

3 - خاندان اور عائلى زندگى كى حفاظت، كيونكہ زنا گھروں كو تباہ و برباد كر ديتا ہے، كيونكہ اگر خاوند كسى عورت كو معشوق بنا لے، يا پھر بيوى اپنا عاشق بنا لے تو بلا شك و شبہ خاندان تباہ ہو كر بكھر جائيگا.

4 - مختلف بيماريوں سے بچاؤ جو اس فحاشى كے پھيلاؤ كى ربانى سزاؤں ميں شامل ہيں، اس فحش كام كى بنا پر مختلف معاشرے جن بيماريوں كا شكار ہيں وہ كسى پر مخفى نہيں مثلا سيلان، ايڈز كى خطرناك بيمارياں جس نے كئى ملين انسانوں كو فنا كر كے ركھ ديا ہے، اور كئى ملين انسان اس ميں شكار ہو چكے ہيں.

1427 ہجرى الموافق 2006ميلادى ميں اس بيمارى كے شكار افراد كى تعداد 45 ملين پہنچ چكى تھى، اور اس بيمارى كے باعث بيس 20 ملين افراد مر چكے ہيں، اور تقريبا 301 ملين انسان اس بيمارى كے اسباب كا شكار ہيں.

اور افريقا ميں موت كا رئيسى سبب ايڈز شمار كيا جاتا ہے، اور پورى دنيا ميں وفات كا چوتھا سبب شمار ہوتا ہے، تو كونسا ايسا عقلمند شخص ہے جو معاشرے ميں اس طرح كا مرض پھيلنے پر راضى ہو گا ؟

عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس قوم ميں بھىزنا عام ہوا حتى كہ وہ اعلانيہ طور پر فحش كام كرنے لگيں ہوں تو ان ميں طاعون اور ايسى بيمارياں اور درد پھيلى جو ان سے پہلے لوگوں ميں نہيں پھيلى تھى "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 4019 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور جو كچھ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا تھا وہ آج واقع ہو چكا ہے.

5 - عورت كى عزت و تكريم كى حفاظت: كيونكہ زنا كى اباحت كا معنى يہ ہے كہ عورت كى عزت و كرامت سلب كى جائے، اور اسے ايك ايسا ذليل و رسوا سامان بنا ديا جائے جس كى كوئى قدر و قيمت نہ ہو، اسلام لوگوں كو عزت دينے كے ليے آيا ہے، اور خاص كر عورت كو اس كى كھوئى ہوئى عزت واپس دلانے كے ليے، كيونكہ جاہليت ميں عورت ايك ايسا سامان اور مال سمجھا جاتا تھا جو وراثت ميں تقسيم ہوتى اور توہين و تحقير كا سبب سمجھى جاتى تھى.

6 - جرائم پھيلنے سے روكنا: زنا ايسا سبب ہے جو بہت سارے جرائم پھيلنے كا باعث بنتا ہے، اور قتل و غارت كے اكثر جرائم اسى زنا كى بنا پر ہوتے ہيں، خاوند اپنى بيوى اور اس كے عاشق كو قتل كر ديتا ہے، اور بعض اوقات زانى شخص اپنى معشوق كے خاوند يا جو شخص اس كے آڑے آئے اور اس عورت كو چاہتا ہو اسے قتل كر ديتا ہے، اور بعض اوقات عورت بھى ايسے شخص كو قتل كر ديتى ہے جس نے اس كے ساتھ جبرا زنا كيا تھا.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور جب زنا كى خرابى سب سے عظيم خرابى تھى اور يہ دنيا ميں نسب كى حفاظت كے نظام كى مصلحت اور عزت و عصمت اور ناموس كى حمايت اور حرمتوں كى ديكھ بھال كے منافى تھى، اور اس كى بنا پر لوگوں كے مابين سب سے زيادہ دشمنى اور بغض و عداوت پھيلتى ہے، كہ زنا كى وجہ سے ہر ايك دوسرے كى بيوى، بيٹى، اس كى بہن اور اس كى ماں كى عزت و ناموس خراب كرتا، تو اس ميں سارى دنيا كو خراب كرنا تھا، اس ليے زنا كى حرمت اس فساد سے بچاؤ ہے، اور پھر اس خرابى كے ساتھ دوسرى خرابى قتل و غارت كى خرابى ہے، اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى سنت ميں اسے ملا كر ذكر كيا ہے.

امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں: ميرے علم ميں قتل كے بعد زنا سے بڑى كوئى چيز نہيں "

اور اللہ سبحانہ و تعالى نے اس حرمت كى تاكيد اپنے اس فرمان ميں كى ہے:

اور وہ لوگ جو اللہ كے ساتھ كسى دوسرے كو معبود نہيں بناتے اور كسى ايسے شخص كو جسے قتل كرنا اللہ تعالى نے حرام كيا ہے وہ بجز حق كے اسے قتل نہيں كرتے، اور نہ وہ زنا كے مرتكب ہوتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائيگا .

اسے قيامت كے روز دوہرا عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذلت و خوارى كے ساتھ ہميشہ اسى ميں رہيگا .

سوائے ان لوگوں كے جو توبہ كريں اور ايمان لائيں اور نيك كام كريں، ايسے لوگوں كے گناہوں كو اللہ تعالى نيكيوں ميں بدل ديتا ہے، اور اللہ بخشنے والا مہربانى كرنے والا ہے

اور جو توبہ كرنے كے بعد نيك و صالح اعمال كرے تو وہ اللہ كى طرف سچا رجوع كرتا ہے الفرقان ( 67 - 71 ).

تو اللہ سبحانہ و تعالى نے زنا كو شرك اور ناحق قتل كرنے كے ساتھ ملا كر ذكر كيا ہے، اور اس كى سزا آگ ميں ڈبل المناك عذاب كے ساتھ ہميشہ رہنا بيان كى ہے، جب تك بندہ اس سزا كے موجب سے توبہ نہيں كرتا، اور ايمان كے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ نہيں كرتا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم زنا كے قريب مت جاؤ، كيونكہ يہ فحاشى اور بہت ہى برا راہ ہے .

تو يہ بتايا ہے كہ يہ فى نفسہ فحاشى ہے، اور يہ وہ قبيح كام ہے جس كى قباحت اتنى بلند ہے كہ اس كا فحش ہونا عقلوں ميں بيٹھ چكا ہے، حتى كہ اكثر حيوانات بھى اسے فحش سمجھتے ہيں " انتہى

ديكھيں: الجواب الكافى ( 105 ).

اللہ ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب