الحمد للہ.
خاوند كے ليے دوسرى بيوى كو بتانا ضرورى نہيں كہ وہ پہلے بھى شادى شدہ ہے، اور نہ ہى يہ نكاح كى صحت پر اثرانداز ہوتا ہے، اس طرح كہ اس نكاح ميں شروط اور اركان پورے تھے تو يہ نكاح صحيح ہے.
شيخ ابن جبرين حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا خاوند كے ليے شرط ہے كہ وہ شادى كرنے والى عورت كو بتائے كہ وہ پہلے بھى شادى شدہ ہے، چاہے اس نے سوال نہ بھى كيا ہو، اور اگر سوال كيا جائے اور وہ اس سے انكار كر دے تو اس كے نتيجہ ميں كيا مرتب ہوتا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" آدمى كا اپنى بيوى يا سسرال والوں بتانا ضرورى نہيں كہ وہ شادى شدہ ہے چاہے وہ اس كا سوال نہ بھى كريں، ليكن يہ چيز غالبا مخفى نہيں رہتى، كيونكہ شادى تو كچھ عرصہ بعد ہى ہوتى ہے اور اس عرصہ ميں خاوند اور بيوى كے متعلق باز پرس اور خاندان كے بارہ ميں دريافت كيا جاتا ہے، اور ان كى صلاحيت كى تحقيق ہوتى ہے.
ليكن فى الواقع چيز كو چھپانا جائز نہيں، اور اگر كسى ايك جانب سے جھوٹ ثابت ہو جائے اور اس پر بنا بھى ہو تو دوسرے فريق كو اختيار ہو گا كہ وہ اسے باقى ركھے يا چھوڑ دے، چنانچہ اگر وہ يہ ذكر كرے كہ وہ غير شادى شدہ ہے اور اس ميں اس نے جھوٹ بولا تو عورت كو نكاح فسخ كرنے كا حق حاصل ہے.
اور اگر لڑكى كے گھر والوں نے كہا كہ لڑكى كنوارى ہے ليكن وہ شادى شدہ تھى تو خاوند كو اختيار حاصل ہے كہ وہ شادى پورى كرے يا اسے چھوڑ دے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 129 ).
واللہ اعلم .