سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

فرض اور نفل نماز کے درمیان گفتگو یا جگہ تبدیل کر کے فاصلہ ڈالنا مستحب ہے۔

سوال

اگر میں فرض پڑھنے کے بعد نفل پڑھنا چاہوں تو کیا نفلوں کیلئے جگہ تبدیل کرنا مستحب ہے؟ تا کہ میرے لیے زیادہ سے زیادہ زمین گواہ بن سکے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جی فرض نماز اور نوافل کے درمیان گفتگو یا جگہ تبدیل کر کے فاصلہ قائم کیا جائے۔

اس کیلئے افضل ترین بات یہ ہے کہ گھر جا کر نفلی نماز مکمل کریں، کیونکہ انسان کی فرض نماز کے علاوہ ہر نماز گھر میں افضل ہوتی ہے، جیسے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، چنانچہ صحیح مسلم: (1463) میں معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "جب تم جمعہ کی نماز پڑھ لو تو اس وقت تک نوافل شروع نہ کرو جب تک تم کوئی گفتگو نہ کر لو، یا باہر نہ نکل جاؤ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی بات کا حکم دیا ہے کہ نماز کیساتھ کسی دوسری نماز کو نہ ملایا جائے حتی کہ ہم بات کر لیں یا باہر چلے جائیں"

نووی رحمہ اللہ صحیح مسلم کی شرح میں کہتے ہیں:
"اس حدیث میں ہمارے شافعی فقہائے کرام کے موقف کی دلیل ہے کہ سنن مؤکدہ یا غیر مؤکدہ جو بھی نوافل ہوں ان کی ادائیگی کیلئے فرض نماز کی جگہ سے ہٹ جانا چاہیے، اور افضل یہی ہے کہ گھر جا کر ادا کریں، وگرنہ مسجد میں کسی بھی جگہ ادا کریں، تا کہ سجدہ کرنے کی جگہیں متعدد ہو سکیں۔

اس طرح نفل اور فرض نماز ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گی، معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ: " حتی کہ ہم بات کر لیں " اس چیز کی دلیل ہے کہ فرض اور نفل میں فاصلہ گفتگو سے ہو جائے گا، لیکن ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا ہماری بیان کردہ وجہ کے باعث افضل ہے، واللہ اعلم" انتہی

ابو داود: (854) اور ابن ماجہ: (1417) -یہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں-میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے لگے تو آگے پیچھے یا دائیں بائیں ہٹ جانے سے عاجز ہو جاتا ہے؟)یعنی: فرض نماز کے  نوافل شروع کرنے سے پہلے جگہ تبدیل کیوں نہیں کرتا؟
اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے سنن ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "الفتاوى الكبرى" (2/359) میں کہتے ہیں:
"سنت یہی ہے کہ فرائض اور نوافل چاہے جمعہ کی نماز کے ہوں یا کسی اور نماز کے، درمیان میں فاصلہ ڈالنا چاہیے، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ:
(آپ نے ایک نماز کو دوسری نماز کیساتھ ملانے سے منع فرمایا، یہاں تک کہ درمیان میں گفتگو یا کھڑے ہو کر فاصلہ نہ کر لیا جائے)
لیکن بہت سے لوگوں کی طرح یہ نہ کیا جائے کہ سلام کیساتھ ہی سنتیں شروع کر دی جائیں ؛ کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منع کردہ کام کا ارتکاب ہوگا۔

اور درمیان میں فاصلہ پیدا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ فرض اور غیر فرض میں امتیاز ہو سکے، جیسے کہ عبادت اور غیر عبادت عمل میں فرق ہوتا ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرنا مستحب ہے، عید الفطر کے دن کچھ کھا کر عید کیلئے جانا مستحب ہے، رمضان کے روزوں سے پہلے ایک یا دو روزے رکھنا منع ہے، یہ تمام ممنوعات اس لیے ہیں کہ شرعی روزوں کو دوسروں سے الگ کیا جائے، عبادت کو دیگر امور سے ممتاز کیا جائے، بالکل اسی طرح جمعہ بھی  دیگر واجب عبادات سے الگ امتیازی حیثیت رکھتا ہے" انتہی

فرائض اور نوافل کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کیلئے کوئی بھی حرکت  دو عبادات کے درمیان فرق واضح کرتی ہے، اور کچھ علمائے کرام نے اس کی ایک اور وجہ بھی بیان کی ہے کہ: اس طرح قیامت کے دن گواہی دینے والی جگہوں کی تعداد زیادہ ہوگی؛ کیونکہ جس جگہ بھی عبادت کی ہوگی وہ جگہ قیامت کے دن اس کیلئے گواہی دے گی، نیز جگہ تبدیل کرنے پر زیادہ سے زیادہ جگہوں پر عبادت کا عمل سر انجام دیا جائے گا، اور اگر کوئی جگہ تبدیل نہ کرے تو پھر گفتگو کے ذریعے فاصلہ ڈالے" انتہی

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب