ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

بيوى كنوارى نہ تھى تو اسے طلاق ديكر اس سے حرام معاشرت كرتا رہا

116399

تاریخ اشاعت : 18-01-2012

مشاہدات : 7891

سوال

ايك شخص نے شادى كى تو سہاگ رات بيوى كو كنوارى نہ پا كر طلاق دے دى، بيوى كے ميكے والوں اور خاوند كے گھر والوں كو نہ تو طلاق كا علم ہے اور نہ ہى كنوارہ پن ضائع ہونے كا، اور اس سے انتقام لينے كے ليے اسے اپنے پاس ہى ركھا اور اس سے معاشرت بھى كرتا رہا ليكن اس ميں بيوى سے رجوع كى نيت نہ تھى، اور اس نے بيوى سے بھى كہہ ديا كہ وہ اس كے ساتھ رہ تو رہا ہے ليكن رجوع كى نيت نہيں، اور بيوى كو بتايا كہ كچھ عرصہ بعد فيصلہ كريگا كہ آيا وہ اس كے ساتھ مستقل رہنا چاہتا ہے يا نہيں، ليكن خاوند اور بيوى كے مابين ازدواجى تعلقات قائم رہے.
يہ علم ميں رہے كہ دو برس كے بعد ان كے مابين معاملات استقرار پا گئے اور دونوں اكٹھے زندگى گزارنے پر متفق ہو گئے اور خاوند كو علم تھا كہ عدت گزرنے كے بعد عقد نكاح اور نيا مہر ضرورى ہے، اور بيوى كو بھى اس كے متعلق بتا ديا، اور اس ليے كہ طلاق كا كسى اور كو علم نہ تھا دونوں اس پر متفق ہوئے كہ جب بيوى ميكے جائيگى تو وہ بيوى كے والدين كے سامنے عقد جديد كے سياق كلام ميں ميرى بيوى كے الفاظ دھرائےگا اور اسى طرح اپنے گھر والوں كے سامنے بھى اور اسے انہوں نے آپس ميں ايجاب و قبول اور بيوى كے ولى كى موافقت ضمنى اور گواہ ( ان كے جاننے والے اور دونوں كے خاندان ) شمار كيا، اور جو كچھ ہو چكا تھا خاوند اور بيوى دونوں نے اس سے توبہ و استغفار كر لى، اور اس كے بعد اللہ نے انہيں ايك بچہ ديا اور پھر دوسرا بھى.
كيا ان كى شادى صحيح ہے، اور اگر صحيح نہيں تو انہيں كيا كرنا چاہيے، يہ علم ميں رہے كہ شادى كو سات برس ہو چكے ہيں ( دو برس سہاگ رات كے بعد اور اكٹھے رہنے كے اتفاق كے بعد پانچ برس ) ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آدمى كو اس قبيح اور شنيع عمل پر تعجب ہوتا كہ اتنى بڑى اور فحش برائى ايسے شخص سے صادر ہو جو حلال كو چھوڑ كر حرام كى طرف چل نكلے، اور صرف انتقام كے دعوى كى بنا پر دو برس تك زناكاروں ميں شامل ہو كر زنا كرتا رہے.

اور پھر عورت بھى اس پر موافق ہو اور اس برائى كو مت روكے اور انكار نہ كرے، وہ صرف رسوائى كے ڈر اور خدشہ اور عار كى خاطر گناہ اور آگ پر راضى ہو گئى، اس طرح وہ دونوں ہى زناكارى كى زندگى بسر كرتے رہے اور لوگ اسے خاوند اور بيوى سمجھتے رہے.

ليكن علام الغيوب اللہ مالك الملك پر تو حقيقت حاصل مخفى نہيں رہ سكتى، اللہ نے ان پر كتنا رحم كيا اور كس قدر حلم و بردبارى كى كہ ان دونوں كو مہلت دى اور غالب مقتدر كى پكڑ نہيں آئى.

ان دونوں احمقوں سے اس اقدام كى شناعت و قباحت كيسے غائب رہى، اور وہ كس طرح بھول گئے كہ زنا كى كتنى شديد سزا ہے، اور كتنا المناك عذاب ہے، حتى كہ جب رجوع اور توبہ كا وقت آيا تو بھى انہوں نے حيلہ سازى كرنا شروع كر دى اور كھلواڑ كيا، اور ايسا عمل كرنے لگے جسے انہوں نے ضمنى عقد اور شرعى نكاح شمار كر ليا!

يہ اس كى دليل ہے كہ ان كے دلوں ميں خواہش گھر كر چكى ہے اللہ اس سے محفوظ ركھے، كنوارہ پن مفقود لڑكى سے ناپسنديدگى و كراہت اللہ كے ليے نہ تھى، بلكہ يہ تو نفسانى خواہش كے ليے تھى، اور نہ ہى حق كى طرف رجوع اس طرح تھا جو اللہ كو پسند ہے، بلكہ يہ تو اپنے نفس كو محفوظ كرنے كے ليے تھا جو برائى پر ابھارنے والا ہے، اس آدمى كو تو يہ چاہيے تھا كہ وہ اپنى باقى عمر اس طرح بسر كرتا كہ اسے ہر وقت خدشہ لگا رہتا كہ كہيں اس كا نفس اسے محسوس يا غير محسوس طريقہ سے ہلاكت ميں نہ ڈال دے.

ہم اس كلام سے ان دونوں كو اللہ كى رحمت سے دور نہيں كر رہے، كيونكہ اللہ كى رحمت تو بڑى وسيع ہے، نہ تو وہ اس گنہگار كے ليے تنگ ہے اور نہ ہى كسى اور كے ليے كم، ان كو يہى كافى ہے كہ وہ توبہ و استغفار كريں، اور اپنے پروردگار كى طرف پلٹ آئيں، اور كثرت سے ندامت اور استغفار كريں، اور انہيں علم ہونا چاہيے كہ ان كا پروردگار توبہ قبول كرنے والا اور رحم كرنے والا ہے، اللہ نے دنيا ميں ان كى پردہ پوشى كى ہے، اور ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى آخرت ميں بھى ان كى پردہ پوشى كرے.

ليكن مقصد يہ ہے كہ بندے كو اپنے كمزور پوائنٹ پر متنبہ رہنا چاہيے، اور اس كے نفس ميں جو بيمارى ہے اس كو جان كر ركھے تا كہ وہ اسے خراب كرنے كى بجائے اس كا سدباب كر سكے اور اس كى تربيت كر لے كہ كہيں اس كا علاج مشكل نہ ہو جائے.

دوم:

جب آدمى اپنى بيوى كو پہلى يا دوسرى طلاق دے دے اور عدت گزرنے تك اس سے رجوع نہ كرے، تو اس كے ليے وہ بيوى حلال نہيں ہوگى جب تك وہ اس كے ساتھ نيا عقد نكاح اور نيا مہر نہ ركھ لے، اور يہ عقد نكاح پورى شروط اور اركان كے ساتھ ہونا چاہيے يعنى اس ميں ولى اور دو گواہ موجود ہوں، اور خاوند اور بيوى كى رضامندى بھى ہو.

ليكن ولى كى جانب سے اس ضمنى ايجاب كا كوئى وزن نہيں ہے، كيونكہ ايجاب كا مقصد تو يہ ہے كہ انشاء كے طريقہ پر ہو يعنى ولى كہے كہ ميں نے اپنى بيٹى كا نكاح تيرے ساتھ كيا اور ہونے والا خاوند كہے كہ ميں نے قبول كيا، اور ايسا نہيں ہوا، كيونكہ ولى كو علم ہى نہيں كہ نكاح ختم ہو چكا ہے تا كہ اس نكاح كى تجديد كى كوشش و سعى كرے.

اس بنا پر خاوند اور بيوى كے مابين عليحدگى كرانا ضرورى ہے حتى كہ خاوند اور عورت كے ولى كے مابين گواہوں كى موجودگى ميں صحيح نكاح ہو، اور خاوند و بيوى يہ كہہ سكتے ہيں ايك طلاق ہو گئى تھى اور عدت گزرنے تك رجوع نہيں ہو سكا، يہ ايسے طريقہ سے بات ہو جس سے سمجھ آئے كہ كچھ ہى مدت قبل ايسا ہوا ہے، تا كہ وہ اپنے آپ پر پردہ ڈال سكيں، اللہ ہى مدد كرنے والا ہے.

اور وہ اولاد جو اس مدت ميں ہوئى وہ ان دونوں كى طرف منسوب ہوگى كيونكہ ان كا اعتقاد تھا كہ يہ نكاح حلال ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مسلمان اس پر متفق ہيں كہ ہر وہ نكاح جس كے بارہ خاوند كا اعقتاد ہو كہ يہ جائز ہے اس ميں كى گئى وطئ ميں پيدا شدہ اولاد كو اس طرف ملحق كيا جائيگا اور مسلمانوں كے اتفاق پر وہ ايك دوسرے كے وارث بھى ہونگے اگرچہ نفس الامر ميں وہ نكاح باطل بھى مسلمان اس پر متفق ہيں.... كيونكہ نسب كا ثبوت نفس الامر ميں صحيح نكاح كا محتاج نہيں؛ بلكہ بچہ تو بستر والے كے ليے ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بچہ بستر والے كے ليے ہے، اور زناكار كے ليے پتھر ہيں "

اس ليے جس نے بھى اپنى بيوى كو تين طلاق ديں اور اس اعتقاد كے ساتھ كہ طلاق نہيں ہوئى اس سے وطئ كر لى اس نے ايسا اپنى جہالت يا پھر كسى غلط فتوى دينے والے مفتى كى تقليد ميں كيا يا كسى اور سبب كى بنا پر تو اس كى طرف نسب ملحق ہوگا، اور بالاتفاق وہ ايك دوسرے كے وارث ہونگے.

بلكہ اس كى عدت تو اس وقت شمار ہوگى جب اس سے وطئ ترك كى جائے، كيونكہ اس نے تو اس سے وطئ اس اعتقاد كى بنا پر كى كہ وہ اس كى بيوى ہے، تو وہ اس كى بستر ہے اس ليے وہ عدت اس وقت گزارےگى جب اس بستر كو ترك كرے اور جس نے كسى عورت سے فاسد نكاح كيا وہ اس نكاح كے فاسد ہونے پر متفق تھے يا اس كے فساد ميں اختلاف تھا، يا اس عورت كا مالك بنا جس كى ملكيت پر متفق يا پھر اختلاف ہو تو اس سے پيدا شدہ بچہ اس كى طرف منسوب ہوگا اور مسلمانوں كے اتفاق كے مطابق وہ ايك دوسرے كے وارث ہونگے " انتہى مختصرا

ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 3 / 325 ).

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 23269 ) اور ( 101702 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب