جمعہ 17 شوال 1445 - 26 اپریل 2024
اردو

گھڑ دوڑ میں شرط لگانے کا حکم

سوال

گھڑ دوڑ میں شرط لگانے کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

گھوڑوں کی دوڑ لگوانا جائز ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نشانہ بازی، اونٹوں کی دوڑ اور گھڑ دوڑ کے علاوہ کسی چیز میں انعامی مقابلہ نہیں۔) اس حدیث کو ترمذی: (1700) ، نسائی: (3585) ، ابو داود: (2574) ، اور ابن ماجہ : (2878) نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث میں گھڑ دوڑ کے لیے رقم صرف کرنے کی اجازت ہے، چاہے یہ رقم کسی ایک کی طرف سے ہو یا راجح قول کے مطابق دونوں کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے، یا پھر کسی ثالث کی طرف سے ہو جیسے کہ ملکی سطح پر منعقد کیے جانے والے مقابلوں میں کیا جاتا ہے۔

لیکن اس میں لوگوں کی طرف سے لگائی جانے والی شرط شامل نہیں ہے کہ جو مقابلے میں شریک کسی فرد کے جیتنے پر یا کسی گھوڑے کے جیتنے پر لگائی جاتی ہیں؛ کیونکہ یہ تو حرام جوا ہے، اور اس جوے کا شریعت کی جانب سے جائز قرار دی جانے والی مقابلے کی کیفیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ شرط اور سٹے بازی بہت سے ممالک میں عام ہے، اور اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا مال ضائع اور تباہ ہوتا ہے۔

اگر مقابلے کی انتظامی کمیٹی کی جانب سے قائم کیے گئے فنڈ میں شرط اور سٹے کی رقم رکھی جاتی ہے تو پھر اس کمیٹی میں کام کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس طرح آپ جوے بازی میں معاون بنیں گے جو کہ اللہ تعالی نے حرام قرار دی ہے اور اسے شراب کے ساتھ بیان کیا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
 ترجمہ: اے ایمان والو! یقیناً شراب نوشی، جوا بازی، تھان ، اور پانسے پلید شیطانی عمل ہیں، ان سے بچو تا کہ تم فلاح پا جاؤ۔ [المائدۃ: 90]

الشیخ عبد المجید سلیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"۔۔۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہو کہ متداول سٹے بازی چاہے وہ گھڑ دوڑ پر ہو [یا کرکٹ کی بال پر۔ مترجم]یا کسی اور چیز پر یہ شرعی طور پر حرام قمار بازی ہے، ایسی کوئی شرعی نص نہیں ہے کہ جس میں اس کی اجازت ہو، بلکہ جو نصوص ہم نے ذکر کی ہیں یہ سب اس کی حرمت کی دلیل ہیں بلکہ شریعت میں جواز بازی اور سٹے بازی کی موجودہ تمام تر شکلوں کو حرام قرار دیا ہے؛ کیونکہ ان کی وجہ سے بہت زیادہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور انہیں ہم روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے بھی ہیں۔

کیونکہ جواری تو اس کام میں اپنی پوری دولت اڑا دیتے ہیں، اچھے بھلے خاندان تباہ و برباد ہو جاتے ہیں، پھر ان سٹے بازوں کو چوری، اور ڈاکے جیسے دیگر جرائم کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے، بسا اوقات خود کشی تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے؛ لہذا مذکورہ خرابیوں اور اس کے علاوہ دیگر منفی اثرات کا مشاہدہ کرنے والے شخص کا اللہ تعالی کی رحمت اور وسیع فضل کے متعلق مزید ایمان پختہ ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے ایسی نقصان دہ سرگرمیوں کو حرام قرار دیا ہے، بالکل اسی طرح جیسے دیگر مضر اور نقصان دہ چیزوں سے اللہ تعالی نے روکا ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: فتاوی الازھر

ایسے ہی دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"ہمارے پاس چند افراد کا ایک گروپ ہے جو "الشرق الاوسط" اخبار کا کھیلوں کا شمارہ خریدتے ہیں، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ: اس مجلے میں گھڑ دوڑ کا مخصوص کوپن ہوتا ہے، اس گروپ کے افراد دوڑ کے ہر راؤنڈ میں جیتنے والے گھوڑے کو نامزد کرتے ہیں، یہ کئی مجلوں سے متعدد کوپن بھرتے ہیں تا کہ انعام جتنے کے مواقع زیادہ ہو سکیں، اس طرح ان کی بہت سی رقم ضائع بھی ہوتی ہے، ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ آپ ہمیں اس بارے میں فتوی صادر کریں؛ کیونکہ ہمیں اس حوالے سے آپ کے فتوے کی ضرورت ہے، تا کہ ان لوگوں کو اس عمل کا شرعی حکم معلوم ہو سکے، اللہ تعالی آپ کو کامیاب فرمائے، اور آپ کے علم سے مسلمانوں کو بہرہ ور فرمائے۔"

تو انہوں نے جواب دیا:
"یہ کام جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ حرام شرط بازی ہے جو کہ جوے میں آتی ہے، اس بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
 ترجمہ: اے ایمان والو! یقیناً شراب نوشی، جوا بازی، تھان ، اور پانسے پلید شیطانی عمل ہیں، ان سے بچو تا کہ تم فلاح پا جاؤ۔ [المائدۃ: 90]
اس بنا پر یہ عمل لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے کا باعث ہے۔
اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔ درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر۔" ختم شد
الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز     الشیخ عبد العزیز آل الشیخ الشیخ عبد اللہ غدیان  الشیخ صالح فوزان    الشیخ بکر ابو زید
"فتاوى اللجنة الدائمة" (15/224)

ماخذ: الاسلام سوال و جواب