سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

امت كے علاوہ كوئى فعل كب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خاص ہو گا ؟

118100

تاریخ اشاعت : 06-04-2009

مشاہدات : 6090

سوال

بعض اوقات علماء كرام كہتے ہيں كہ يہ فعل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خاص ہے، مثلا: لونڈى كا دف بجاتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا سننا، اس موضوع كى كيا دليل اور اصول ہے، كيونكہ جب ہم مخالف كو كہتے ہيں كہ يہ فعل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خاص تھا تو وہ كہتا اس كى دليل كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اصل يہى ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كيا ہے وہ اپنى امت كے مشروع ہے، اور بغير دليل كے كسى كو يہ كہنا جائز نہيں كہ يہ فعل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ مخصوص ہے، اور يہ دليل بھى صحيح ہونى چاہيے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يقينا تمہارے ليے رسول كريم ( صلى اللہ عليہ وسلم ) ميں بہترين نمونہ ہے الاحزاب ( 16 ).

اس اصل پر عمل كرتے ہوئے صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے افعال ميں آپ كى اقتدا اور پيروى كرتے تھے، اور وہ آپ سے دريافت نہيں كرتے تھے كہ آيا يہ فعل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ مخصوص ہے يا نہيں ؟ اس كى دليل درج ذيل روايت ہے:

ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز پڑھائى اور دوران نماز ہى اپنے جوتے اتار ديے تو لوگوں نے بھى اپنے جوتے اتار ديے اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" تم نے اپنے جوتے كيوں اتارے ؟

تو صحابہ نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم نے آپ كو اپنے جوتے اتارتے ديكھا تو ہم نے بھى اتار ديے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميرے پاس جبريل امين آئے اور انہوں نے مجھے بتايا كہ اس كے ساتھ گندگى لگى ہوئى ہے، اس ليے جب تم ميں سے كوئى شخص مسجد آئے تو وہ اپنا جوتا پلٹ كر ديكھے اگر اسے كوئى گندگى نظر آئے تو وہ اسے زمين كے ساتھ پونچھ دے اور پھر اس ميں نماز ادا كر لے "

مسند احمد ( 17 / 242- 243 ) اس حديث كو سند كے محققين حضرات نے صحيح كہا ہے.

بلكہ جب بعض صحابہ نے ايك فعل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خصوصيت كے ساتھ منسوب كيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم اس پر ناراض ہوئے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں صبح كے وقت جنبى ہوؤں اور روزہ ركھنا چاہوں تو كيا كروں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں بھى صبح جنابت كى حالت ميں كرتا ہوں اور روزہ ركھنا چاہتا ہوں تو غسل كر كے روزہ ركھ ليتا ہوں "

تو اس شخص نے كہا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ ہمارى طرح تو نہيں، اللہ تعالى نے تو آپ كے اگلے اور پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ ناراض اور غصہ ہوئے اور فرمايا:

" اللہ كى قسم ميں اميد كرتا ہوں كہ ميں تم ميں سے سب زيادہ اللہ كى خشيت والا بنوں، اور جس كى ميں پيروى كرتا ہوں اس كا تم ميں سب سے زيادہ علم ركھوں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2389 )علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كسى بھى فعل كے متعلق جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كيا ہو اسے بغير كسىنص كے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خاص كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ ايسا كہنے والے شخص پر ناراض ہوئے تھے، اور جو چيز بھى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو غضبناك كرے وہ حرام ہے " انتہى.

ديكھيں: الاحكام فى اصول الاحكام ( 4 / 433 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اصل ميں احكام ميں امت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ شريك ہے، الا يہ كہ جسے كوئى دليل آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ مخصوص كر دے، اسى ليے ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے كہا تھا:

" آپ باہر جائيں اور سر منڈانے اور اپنا جانور قربان كرنے سے قبل كسى سے بھى بات نہ كريں "

ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كو معلوم تھا كہ لوگ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كرينگے " انتہى

ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 307 ).

شيخ صالح بن الفوزان سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا چيز ثابت اور واضح كرتى ہے كہ يہ چيز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ مخصوص ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" اصل يہى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو لائے اور كيا ہے وہ آپ اور آپ كى امت كے ليے عام ہے، ليكن وہ چيز جس كى خصوصيت كى دليل ثابت ہو جائے كہ يہ چيز رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خاص ہے، اس ليے خصوصيت كے ليے دليل كا ہونا ضرورى ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يقينا تمہارے ليے رسول كريم ( صلى اللہ عليہ وسلم ) ميں بہترين نمونہ ہے الاحزاب ( 21 ) " انتہى.

ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 5 / 369 ) سوال نمبر ( 488 ).

دوم:

جو احكام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خاص ہيں ان ميں آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا بغير مہر اور ولى كے شادى كرنا، اور چار سے زائد بيوياں ركھنا، اور ايك دن سے زيادہ تسلسل كے ساتھ روزہ ( وصال ) ركھنا شامل ہے.

ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس كے بعد كسى كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ بغير دليل كے يہ كہتا پھرے كہ يہ فعل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خاص ہےمثلا: عورت كا اپنے آپ كو نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے ہبہ كرنے والى كى نص جو درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:

خالصتا آپ كے ليے مومنوں كے علاوہ .

اور مثلا: روزوں ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا وصال كرنا يعنى يعنى مسلسل روزہ ركھنا اور آپ كا صحابہ كرام كو ايسا كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمانا:

" يقينا ميں تمہارى طرح نہيں ہوں "

اور مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نيند كر كے وضوء كى تجديد نہ كرنا، اور جب اس كے متعلق آپ سے دريافت كيا گيا تو آپ نے فرمايا:

" ميرى آنكھيں تو سوتى ہيں، ليكن ميرا دل نہيں سوتا "

جيسا ہم نے بيان كيا ہے جس ميں وضاحت ہو تو وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خاص ہے، اور جس كے متعلق كوئى نص نہ ہو جيسا ہم كہہ چكے ہيں تو ہمارے ليے اس فعل ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيروى كرنا جائز ہے، اور اس ميں ہميں اجروثواب حاصل ہو گا، اور ہميں يہ بھى حق ہے كہ ہم اسے چھوڑ ديں ليكن اس ميں بےرغبتى نہ كريں، تو ہميں كوئى گناہ نہيں ہو گا، اور نہ ہى اجر ملےگا " انتہى

ديكھيں: الاحكام فى اصول الاحكام ( 4 / 433 ).

رہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موجودگى ميں لونڈى كى دف بجانے والى حديث كا مسئلہ تو يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خاص نہيں، اور نہ ہى اس خصوصيت كى حديث ميں كوئى دليل پائى جاتى ہے.

بريدہ بن حصيب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كسى غزوہ كے ليے گئے اور جب واپس آئے تو ايك سياہ رنگ كى لونڈى آئى اور كہنے لگے: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے نذر مانى تھى كہ اگر اللہ تعالى نے آپ كو صحيح سلامت واپس لوٹايا تو ميں آپ كے سامنے دف بجاؤنگى اور اشعار كہوں گى.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:

" اگر تو تم نے نذر مان ركھى ہے تو پھر دف بجاؤ اور اگر نہيں مانى تو نہ بجاؤ "

تو وہ دف بجانے لگى اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ آئے تو وہ دف بجاتى رہى، پھر على رضى اللہ تعالى عنہ آئے تو بھى وہ دف بجاتى رہى، پھر عثمان رضى اللہ تعالى عنہ آئے تو بھى وہ دف بجاتى رہى، اور پھر عمر رضى اللہ تعالى عنہ آئے تو اس نے دف اپنے سرين كے نيچے ركھ لى اور اس كے اوپر بيٹھ گئى.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اے عمر يقينا شيطان تم سے ڈرتا ہے، ميں بيٹھا ہوا تھا اور يہ لونڈى دف بجا رہى تھى، تو ابو بكر آئے تو بھى يہ دف بجاتى رہى، اور پھر على آئے تو بھى يہ دف بجاتى رہى، پھر عثمان آئے تو بھى دف بجاتى رہى، اے عمر جب تم آئے تو اس نے دف پھينك دى "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 3690 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" حديث صحيح ہے، اور اس كى دو وجہيں ہيں:

پہلى وجہ:

ہو سكتا ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے ليے مباح نذر كى بنا پر مباح كيا ہو؛ تا كہ اس كا دل رہ جائے اور اس كا ايمان اور زيادہ اور قوى ہو، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سلامتى كى بنا پر اس كے سرور و فرحت ميں اضافہ ہو.

دوسرى:

ہو سكتا ہے يہ نذر قرب كے ليے ہو كيونكہ اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سلامتى كے ساتھ واپسى اور دشمن پر غالب ہو كر آنے كى وجہ سے سرور و خوشى پائى جاتى ہے، اللہ تعالى نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كو اور ان كے دين كو غالب كيا، اور يہ افضل تقرب ہے اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس نذر كو پورا كرنے كا حكم ديا " انتہى.

ديكھيں: اعلام الموقعين عن رب العالمين ( 4 / 320 ).

اور عراقى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" بعض اوقات كسى اچھے مقصد كے ليے دف بجائى جاتى ہے مثلا يتيم بچى كى شادى ميں والدين كى كمى دور كرنے كے ليے دف بجانا، اور كسى ايسے شخص كى سلامتى كى خوشى ميں دف بجانا جس كا فائدہ مسلمانوں كو ہو، اس عورت كا دف بجانا بھى اسى ميں شامل ہوتا ہى جو بلاشك مباح ہے " انتہى

ديكھيں: طرح التثريب ( 6 / 56 ).

اور زكريا انصارى كا كہنا ہے:

" شادى اور ختنہ وغيرہ كے موقع پر سرور و خوشى اور فرحت كے اظہار كے ليے دف بجانا مباح ہے، مثلا عيد كے دن اور كسى مسافر كى واپسى پر.. اور مندرجہ بالا لونڈى والى حديث بھى ذكر كى ہے " انتہى

ديكھيں: اسنى المطالب ( 4 / 344 ).

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں لونڈى والى حديث پر تعقيبا درج ہے:

" كسى غائب اور مسافر كى واپسى كے موقع پر سرور و خوشى كى تاكيد كے ليے گانے كى اباحت ميں نص ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 4 / 93 ).

آپ ديكھتے ہيں ان علماء كرام نے كسى غائب و مسافر كى واپسى كے موقع پر دف بجانے كو مباح كہا ہے، خاص كر جب يہ مسافر شخص مسلمانوں كے ليے بہت مفيد ہو.

ليكن يہ اباحت صرف دف بجانے كے ساتھ ہى مقيد ہے اور اس ميں دوسرے آلات موسيقى شامل نہيں ہونگے، اور پھر يہ ان حالات ميں ہى مقيد ہے جن كا ذكر حديث ميں وارد ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 20406 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب