اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بے وضو شخص اور حائضہ عورت کا قرآن مجید کے غلاف یا تفسیر کی کتاب کو ہاتھ لگانے کا حکم

سوال

قرآن کریم پر موٹے کپڑے کا غلاف چڑھا ہوا ہوتا ہے تو کیا کوئی بے وضو شخص غلاف کے ساتھ قرآن کریم کو پکڑ سکتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی بتلائیں کہ قرآن کریم کے صفحات کناروں سے پکڑ کر پلٹے جا سکتے ہیں؟ کیونکہ کچھ لوگ اسے بھی جائز کہتے ہیں؟ ہم تفسیری کتابوں کو کب تفسیر کہیں گے کہ انہیں حائضہ عورت بھی پکڑ سکے اور انہیں دیکھ کر پڑھ سکے، اور کب یہ کہیں گے کہ یہ مصحف ہے کوئی حائضہ اسے چھو نہیں سکتی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جمہور فقہائے کرام کے مطابق کسی بھی بے وضو فرد کے لیے قرآن کریم کو حائل کے بغیر چھونا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے خط میں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل یمن کی جانب ارسال فرمایا تھا اس میں درج تھا کہ: (قرآن کریم کو طاہر شخص ہی چھوئے۔) اسے امام مالک: (468) ابن حبان: (793) اور بیہقی: (1/87) نے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "مذکورہ خط کی حدیث کو اہل علم کی ایک بڑی جماعت نے صحیح قرار دیا ہے، اسناد کی وجہ سے نہیں بلکہ شہرت کی وجہ سے، چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الرسالہ میں کہا ہے کہ: محدثین نے اس حدیث کو قبول نہیں کیا اس لیے ان کے ہاں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مذکورہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تھا۔ جبکہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں: مذکورہ خط اہل سیرت کے ہاں اتنا مشہور و معروف ہے کہ اس کی سند کی ضرورت نہیں رہتی؛ کیونکہ اہل علم میں اس کی مقبولیت اتنی ہے کہ تواتر کے مشابہ ہو گئی ہے۔" ختم شد
"التلخيص الحبير" (4/17)

تاہم اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "إرواء الغليل" (1/158) میں صحیح قرار دیا ہے۔

دوم:
قرآن کریم کے ساتھ جڑے ہوئے غلاف [یعنی: گوند یا سلائی کے ساتھ یا کسی اور طریقے کے ساتھ چپکے ہوئے ] کا بھی وہی حکم ہے جو مصحف کا ہے، لہذا اسے بھی وضو کے بغیر چھونا جائز نہیں ہے، اسی طرح قرآن کریم کے صفحات کے کناروں کا بھی یہی حکم ہے۔

جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (38/7) میں ہے کہ:
"حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی فقہائے کرام پر مشتمل جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن کریم کے ساتھ چپکی ہوئی جلد کو کوئی بے وضو شخص ہاتھ نہیں لگا سکتا، اسی طرح قرآن کریم کے صفحات کے حواشی جہاں کتابت نہیں ہوتی ، سطروں کے درمیان پائی جانے والی خالی جگہ ، اور مصحف کے درمیان میں کتابت سے خالی مکمل صفحات وغیرہ بھی یہی حکم رکھتے ہیں؛ کیونکہ یہ سب چیزیں اصل کے تابع اور اصل کے دائرے میں آتے ہیں، جبکہ کچھ حنفی اور شافعی اس کے جواز کے قائل ہیں۔" ختم شد

تاہم قرآن کریم کا الگ ہو جانے والا غلاف جو عام طور پر لفافہ ہوتا ہے جس میں قرآن کریم کا نسخہ رکھا جاتا ہے اور اس میں سے قرآن کریم کے نسخے کو نکال کر پڑھا جاتا ہے تو اس غلاف کو وضو کے بغیر ہاتھ لگایا جا سکتا ہے چاہے اس غلاف کے اندر قرآن مجید موجود ہو۔

اس لیے مصحف سے الگ ہونے والے حائل سے چاہے وہ غلاف ہو یا دستانے وغیرہ ہوں ؛مصحف کو چھونا جائز ہے۔

جیسے کہ "كشاف القناع" (1/135) میں ہے کہ:
"بے وضو شخص مصحف کو غلاف اور غلاف کی تنی سے اٹھا سکتا ہے، یعنی مصحف کو ہاتھ لگائے بغیر اٹھا لے؛ کیونکہ ممانعت بے وضو کے ہاتھ لگانے سے ہے اٹھانے سے نہیں ہے، اور اٹھانے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ چھونا بھی شامل ہو، بے وضو شخص اپنی آستین سے، یا کسی لکڑی، قلم اور کپڑے کی ٹاکی وغیرہ سے صفحات بھی تبدیل کر سکتا ہے؛ کیونکہ اس صورت میں بھی بے وضو شخص قرآن کریم کو ہاتھ نہیں لگا رہا۔ بے وضو شخص کسی بھی حائل کے ذریعے قرآن کریم کو چھو بھی سکتا ہے؛ کیونکہ درمیان میں حائل ہونے کے وجہ سے اسے ممنوعہ چھونا نہیں کہہ سکتے۔" مختصراً ختم شد

سوم:
جمہور فقہائے کرام کے موقف کے مطابق کوئی شخص بے وضو ہو یا جنبی تفسیر کی کتب کو ہاتھ لگا سکتا ہے، تاہم کچھ اہل علم نے یہ قید لگائی ہے کہ تفسیر کی کتاب میں قرآنی نص کم اور تفسیر زیادہ ہو، جبکہ کچھ نے یہ قید بھی نہیں لگائی۔

جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (13/97) میں ہے کہ:
"جمہور فقہائے کرام کے ہاں بے وضو شخص کے لیے تفسیری کتاب کو چھونا جائز ہے چاہے اس میں قرآنی آیات کیوں نہ موجود ہوں، اسی طرح بے وضو شخص انہیں اٹھا بھی سکتا ہے اور ان کا مطالعہ بھی کر سکتا ہے ، چاہے جنبی ہی کیوں نہ ہو؛ ان کے مطابق تفسیری کتاب میں قرآن کا معنی پڑھنا مقصود ہوتا ہے قرآن کریم کی تلاوت مقصود نہیں ہوتی، اس لیے تفسیری کتاب پر قرآن کریم کے احکامات لاگو نہیں ہوتے۔

جبکہ شافعی فقہائے کرام نے اس جواز کو اس قید کے ساتھ مشروط کیا ہے کہ کتاب میں تفسیری عبارت قرآن کریم کی نص سے زیادہ ہو؛ کیونکہ اس طرح قرآن کریم کی تعظیم میں کوئی خلل پیدا نہیں ہو گا، نیز تفسیری کتاب ؛ مصحف کے حکم میں بھی نہیں ہوتی۔ تاہم حنفی فقہائے کرام نے دوسرا موقف اپناتے ہوئے تفسیری کتب کو چھونے کے لیے بھی وضو کو شرط قرار دیا ہے۔" ختم شد

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تفسیری کتابوں کو چھونا جائز ہے؛ کیونکہ یہ تفسیر ہیں، اور ان میں موجود آیات کی مقدار تفسیر سے کہیں کم ہوتی ہے۔ اس کی دلیل نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی لکھوائی ہوئی تحریروں سے لی جا سکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کافروں کی جانب خطوط لکھ کر ارسال فرمائے اور ان میں آیات بھی لکھی گئیں تھیں، تو اس سے معلوم ہوا کہ غالب اور اکثریت پر حکم لگایا جاتا ہے۔

تاہم اگر تفسیر اور قرآنی نص کی مقدار یکساں ہو تو یہاں جواز اور ممانعت دونوں کے اسباب جمع ہو رہے ہیں، اور کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا ممکن نہیں ہو رہا تو ایسے میں ممانعت کے سبب کو ترجیح دیتے ہوئے اسے قرآن کا حکم دیا جائے گا۔ اور اگر معمولی سی بھی تفسیر زیادہ ہو تو اسے تفسیر کا حکم دیا جائے گا۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (1/267)

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (4/136)میں ہے:
"قرآن کریم کے معانی کا غیر عربی زبان میں ترجمہ کرنا اسی طرح جائز ہے جیسے عربی زبان میں قرآن کریم کے معانی کو بیان کرنا جائز ہے، تاہم یہ مترجم کو سمجھ میں آنے والا قرآن کریم کا فہم ہو گا اسے قرآن نہیں کہا جائے گا۔

اس بنا پر غیر عربی زبان میں کیے گئے قرآن کریم کے معانی اور عربی تفاسیر کو بغیر وضو کے ہاتھ لگانا جائز ہے۔" ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب