سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ازدواجى زندگى كے متعلق شرعى احكام پر بيوى كے بہت زيادہ اعتراضات

118362

تاریخ اشاعت : 11-05-2012

مشاہدات : 12241

سوال

برائے مہربانى اس عورت كے شبھات كا رد كريں ايك ويب سائٹ مجلس ميں يہ عورت اعتراض كرتے ہوئے كہتى ہے:
خاوند كى فضيلت اور اس كے حقوق كے متعلق بہت سارى احاديث پائى جاتى ہيں جن ميں كچھ مفہوم بيان كرتى ہوں:
ـ خاوند بيوى كو مباشرت كے ليے بلائے اور بيوى انكار كر دے تو فرشتے عورت پر لعنت كرتے ہيں.
ـ اگر كسى شخص كو كسى دوسرے كے سامنے سجدہ كرنے كا حكم ديا جاتا تو عورت كو كہا جاتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے، آپ ديكھيں يہ خاوند كوئى بھى ہو اور چاہے اپنے مزاج كے مطابق بيوى سے سلوك كرے يا حسن معاشرت كرتا ہو.
ـ جو عورت پانچ نمازيں ادا كرتى اور اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے اور خاوند كى اطاعت كرے تو وہ جنت ميں داخل ہوگى.
اگر عورت فوت ہو اور اس كا خاوند اس سے راضى تھا تو عورت جنت ميں جائيگى. مرد چاہے دو يا تين يا چار شادياں كر سكتا ہے؛ كيونكہ يہ زنا سے افضل ہے، ليكن اس عورت كے بارہ ميں كيا ہے جسے اس كا خاوند چھوڑ دے ؟! وہ عورت اس سے خلع طلب كرنے كے ليے خاوند كو مال ادا كرے، اور بعد ميں تكليف و مصيبت بھى اٹھائے!
آدمى بيوى كو گھر سے باہر نكلنے كى اجازت نہيں ديتا اور سفر پر چلا گيا عورت كا والد بيمار ہوا تو اس نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اجازت مانگى تو آپ نے فرمايا خاوند كى اطاعت كرو، اس كا والد فوت ہوگيا ليكن وہ اسے ديكھ بھى نہ سكى!
ـ طلاق كى صورت ميں عورت بچے كى تربيت كرتى اور رات بيدار رہتى اور مشكل سے مشكل مراحل سے گزرتى ، اور پھر جب بچہ خود كھانے پينے كے قابل ہو تو والد آ كر لے جائے!
اگر ان احاديث كو بيان كرنے ميں مجھے كوئى غلطى لگى ہو تو آپ اس كى تصحيح كر ديں، مجھے نصا احاديث ياد نہيں ہيں، ليكن عورت اور اس كے حقوق كے بارہ ميں كيا ہے اسے كہا جاتا ہے حقوق حاصل كرنے كے ليے عدالت ميں جانا پڑ تا ہے، ہم ايسے مردانہ معاشرہ ميں رہتے ہيں جہاں مرد كو ہى تقويت دى جاتى ہے چاہے وہ ظلم بھى كرے يا غلط بھى ہو ليكن عورت كو صبر و تحمل كرنے كى تلقين كے ساتھ اپنے كچھ حقوق سے بھى دستبردار ہو جائے تا كہ خاوند راضى ہو اور گھر كا شيرازہ نہ بكھرے، كيونكہ طلاق كے بعد تو اسے اور بھى زيادہ مشكلات پيدا ہونگى، اس كے ليے دوسرى شادى كرنا اور بچوں كو پالنا مشكل ہوتا ہے.
مجھے بھى اسى طرح كى مشكلات كا سامنا ہے، شادى كے صرف دو ماہ بعد مجھے خاوند نے صرف اس بنا پر چھوڑ ديا كہ ميں خاوند كى ايك قريبى رشتہ دار كے ہاں نہيں گئى تھى، مجھے اس نے تين ماہ تك ميكے ميں چھوڑے ركھا اور كوئى خبر بھى نہ لى حالانكہ ميں حاملہ تھى، اب وہ كسى دوسرے ملك ميں چٹھياں گزار رہا ہے اور مجھے معلق چھوڑ ركھا ہے مجھے حمل كى مشكلات كے ساتھ ذہنى پريشانى بھى اٹھانا پڑ رہى ہے، كيا ميں طلاق طلب كر لوں يا نہ ، اور بچے كا كيا ہو گا ؟ كيا وہ اسے لے جائيگا يا ميں اس كے ليے چھوڑ دوں ؟ كيا ميں اس سے ايسے گناہ كى معافى مانگوں جس كا ميں نے ارتكاب بھى نہيں كيا ؟
وہ ميرے ساتھ حسن سلوك نہيں كرتا پہلى رات سے ہى مجھ پر سختى كر رہا ہے اور مجھے سبب كا بھى علم نہيں، اس كى والدہ كا اس پر بہت اثر ہے، مجھے بتائيں ميں كيا كروں كيا دين ميں كوئى ايسى جانب ہے جہاں مرد و عورت كے مابين مساوات قائم كى گئى ہيں جس كا مجھے علم نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

يہ بات تو واضح ہے كہ جس عورت نے يہ لكھا ہے اسے اپنے خاوند كى جانب سے برے سلوك كى بنا پر بہت زيادہ نفسياتى دباؤ كا سامنا كرنا پڑا ہے، ليكن اس عورت نے اپنے خاوند كے ساتھ حسن تصرف سے كام نہيں ليا، اور شكايت كرتے وقت بھى اچھى بات نہيں كہہ سكى، جس كى بنا پر خاوند كے بارہ ميں شكايت سے بڑھ كر دين كے بارہ ميں شكايت تك جا پہنچى ہے!

ہميں معلوم نہيں كہ اس عورت نے كونسا نظام اور كونسا دين ديكھا ہے جو عورت كو وہ مقام اور مرتبہ ديتا ہے جو دين اسلام نہيں ديتا! بہر حال يہ كلام توا كثر طور كہى جاتى ہے ليكن يہ باطل ہے عقل و دان شركھنے والے اور خاص كر عقلمند عورتيں اسے باطل قرار ديتى ہيں، كيونكہ عورت جانتى ہے كہ وہ گھر ميں ملكہ ہوتى ہے، اور وہ ايك ايسا موتى اور جوہر ہے جو چھپا ہوا اور محفوظ ہے.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند كو اپنى بيوى كے ساتھ حسن معاشرت كا حكم ديا، اور بيوى كا نان و نفقہ اور سارے اخراجات خاوند كے ذمہ لگائے ہيں، اس ليے نہيں كہ وہ اس كى ملكيتى چيز ہے، اور نہ ہى اس ليے كہ وہ ايك تجارتى سامان ہے جو خريدا جائے يا فروخت كيا جائے.

بلكہ صرف اس ليے كہ وہ عورت تو اس كى شريك حيات ہے اور ايك مسلمان گھر تيار كرنے ميں اس كى شريك شمار ہوتى ہے، اور اس ليے بھى كہ وہ گھر ميں عظيم كام سرانجام ديتى ہے، چنانچہ بچوں كى تربيت اور گھر كى حفاظت اور خاوند كے مال كى حفاظت كى ذمہ دار ہوتى ہے، اس كے ساتھ خاوند كو حرام نظر سے بچا كر عفت و عصمت ديتى ہے، اور ہر قسم كى فحاشى سے بچاتى ہے، اسى ليے اللہ تعالى كى كتاب قرآن مجيد ميں عورتوں كے بارہ ميں وصيت وارد ہے، اور سنت نبويہ ميں بھى اور يہ وہ وصيت ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اپنى امت كو آخرى وصيت تھى.

دين اسلام ميں عورت كى عزت و تكريم اور دور جاہليت ميں عورت كى تذليل كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 21010 ) اور اسى طرح سوال نمبر ( 70042 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

ہم اس كا انكار نہيں كرتے كہ ايك مسلمان خاوند كى جانب سے غلطى ہو سكتى ہے اور اس سے جرائم بھى سرزد ہو سكتے ہيں، ليكن يہاں دو چيزوں كى تنبيہ كرنا چاہتے ہيں:

اول:

تم اپنے خاوندوں كى غلطيوں كو شريعت مطہرہ كى طرف منسوب مت كرو، كيونكہ ظلم كرنے والے خاوند كو اللہ رب العالمين كى جانب سے بہت شديد وعيد سنائى گئى ہے اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند كے ليے بيوى پر ظلم و ستم كرنا مباح نہيں كيا، بلكہ اللہ تعالى نے تو بيوى كے ساتھ حسن معاشرت كا حكم ديا ہے، اور اگر يہ شادى موافق نہ ہو اور دونوں كا آپس ميں رہنا مشكل اور محال ہو تو پھر اللہ نے خاوند كو حكم ديا ہے كہ وہ بيوى كو احسن انداز كے ساتھ چھوڑ دے، اور اسے اس كے مكمل حقوق ادا كرے.

دوم:

مسلمان عورت كو يہ نہيں بھولنا چاہيے كہ بيويوں كى جانب سے بھى اپنے خاوندوں كے حقوق ميں كوتاہى كا ارتكاب ہوتا ہے، كوئى گھر ميں اپنے خاوند كا خيال نہيں كرتى، تو كوئى خاوند كے حقوق ميں كوتاہى كى مرتكب ہو رہى ہے، اور كوئى بہت زيادہ عناد والى ہے، اور كسى كى ماں اسے كنٹرول كر رہى ہے، اور كوئى اپنے خاوند كو ملازم بنا كر ركھنا چاہتى ہے، وہ اسے ايسا خاوند نہيں ديكھنا چاہتى جو گھر اور اولاد كا ذمہ دار ہو.

بہت سارے ايسے گھر ہيں جنہيں بيوى نے اپنے برے اخلاق اور خاوند كے ساتھ سوء معاشرت كى بنا پر تباہ كر كے ركھ ديا، نہ تو وہ كسى مالى مشكل كا خيال كرتى ہے، اور نہ ہى كسى دوسرى مشكل كو سمجھتى ہے، اور اس كے ليے امتوں ميں مہنگائى كى لہر كى كوئى وقعت نہيں، اور نہ ہى اسے خاوند كا اكثر وقت ڈيوٹى پر رہنا پريشان كرتا ہے كہ وہ روٹى كما سكے.

اسے تو صرف بلافائدہ اشياء كى خريدارى اور سير و سياحت وغيرہ كى ہى پريشانى رہتى ہے وہ كيوں نہيں خريدى جا سكيں، اور اس كے ساتھ ساتھ اجنبى مردوں كے ساتھ موبائل ميسج اور انٹرنيٹ كے ذريعہ چيٹ كر كے خاوند كو دھوكہ ديتى پھرتى ہے، اس كے علاوہ اور بہت سارى خبريں بھى ہميں ملتى رہتى ہيں، اور اس كے حال كا بھى علم ہے، ليكن اس كے باوجود ہم غلطى كو كسى دوسرے كى طرف منسو بہيں كرتے بلكہ غلطى اسى كى طرف منسوب ہوگى جس نے غلطى كا ارتكاب كيا ہو، اور اس غلطى كو شريعت مطہرہ كى طرف منسوب نہيں كريں گے جو فضائل لائى ہے، اور اپنے متبعين كو حسن سلوك اور احسان سكھاتى ہے.

دوم:

كاتبہ نے جو كچھ لكھا ہے وہ اس كى جہالت كى دليل ہے اور جس نے ان احاديث سے عورت پر ظلم اور خاوند كى اس سے تقديس كى رائے پر استدلال كيا ہے اس كى جہالت كى بھى دليل ہے، ان احاديث ميں سے كچھ تو ضعيف ہيں، اور كچھ بہت زيادہ ضعف كى حامل ہے، اور كچھ احاديث صحيح ہيں.

پہلى حديث:

ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت بھى اس حالت ميں فوت ہوئى كہ اس كا خاوند اس پر راضى تھا تو وہ جنت ميں داخل ہو گى "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1161 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1854 ).

يہ حديث ضعيف ہے صحيح نہيں.

 ا ـ امام ذہبى رحمہ اللہ كہتے ہيں: مساور الحميرى اپنى ماں سے بيان كرتے ہيں وہ ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كرتى ہے.

اس ميں جہالت پائى جاتى ہے، اور يہ خبر منكر ہے.

ديكھيں: ميزان الاعتدال ( 4 / 95 ).

ب ـ اور ابن جوزى رحمہ اللہ كہتے ہيں: مساور مجہول راوى ہے، اور اس كى ماں بھى مجہولہ ہے.

ديكھيں: العلل المتناہيۃ ( 2 / 630 ).

ج ـ علامہ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ منكر ہے "

ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ و الموضوعۃ حديث نمبر ( 1426 ).

دوسرى حديث:

انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص كى بيوى كا والد بيمار ہوگيا تو وہ عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كرنے لگى:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرا والد مريض ہے اور ميرا خاوند مجھے اپنے والد كى تيمار دارى كى اجازت نہيں ديتا ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم اپنے خاوند كى اطاعت كرو، چنانچہ اس عورت كا والد فوت ہو گيا بيوى نے اپنے خاوند سے اس كى نماز جنازہ ميں جانے كى اجازت مانگى تو خاوند نے نماز جنازہ ميں بھى جانے كى اجازت نہ دى، چنانچہ اس عورت نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فر مايا: تم اپنے خاوند كى اطاعت كرو، اس نے اپنے خاوند كى اطاعت كى اور والد كى نماز جنازہ بھى نہ پڑھى، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس عورت سے فرمايا:

" اللہ تعالى نے تيرى اپنے خاوند كى اطاعت كى بنا پر تيرے والد كو بخش ديا ہے "

اسے طبرانى الاوسط ( 7 / 332 ) ميں روايت كيا گيا ہے، يہ حديث بھى ضعيف جدا يعنى بہت زيادہ ضعيف يا پھر موضوع ہے!.

شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اسے امام طبرانى نے الاوسط ( 1 / 169 / 2 ) ميں عصمۃ بن متوكل نے زافر عن سليمان عن ثابت البنانى عن انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے، اور وہ كہتے ہيں زافر سے صرف عصمۃ نے ہى روايت كيا ہے اس كے علاوہ كسى نے نہيں.

ميں ( علامہ البانى ) كہتا ہوں: يہ ضعيف ہے، العقيلى نے الضعفاء ( 325 ) ميں اسے قليل الضبط للحديث اور وہم كا شكار قرار ديتے ہوئے يہم وھما كہا ہے، اور ابو عبد اللہ يعنى امام بخارى رحمہ اللہ كہتے ہيں " لا اعرفہ " ميں اسے نہيں جانتا.

پھر اس كى وہ حديث بيان كى ہے جس كے متن ميں اس نے غلطى كى ہے.

اور امام ذہبى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " يہ شعبہ پر جھوٹ ہے".

اور اس كا استاد اور شيخ " زافر " ابن سليمان القھستاني ہے، يہ بھى ضعيف ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ " التقريب التھذيب " ميں كہتے ہيں: " صدوق كثير الاوھام "

ھيثمى رحمہ اللہ " المجمع ( 4 / 313 ) ميں كہتے ہيں:

" اسے طبرانى نے الاوسط ميں روايت كيا ہے اس كى سند ميں عصمۃ بن متوكل ہے جو كہ ضعيف ہے"

ديكھيں: ارواء الغليل ( 7 / 76 - 77 ).

سوم:

يہ قول:

" جس عورت كو اس كا خاوند ہم بسترى كى دعوت دے اور وہ اس سے انكار كر دے تو صبح تك فرشتے اس عورت پر لعنت كرتے رہتے ہيں "

جى ہاں يہ واقعى ايسے ہى ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب مرد اپنى بيوى كو اپنے بستر پر ( ہم بسترى كے ليے ) بلائے اور وہ انكار كر دے اور خاوند اس پر رات ناراضگى كى حالت ميں بسر كرے تو صبح تك فرشتے اس عورت پر لعنت كرتے رہتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3065 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1736 ).

اور يہ ممكن ہى نہيں كہ فرشتے اللہ تعالى كے حكم بغير كوئى عمل كريں، كيونكہ فرشتے اللہ كے حكم كى نافرمانى نہيں كرتے، اور فرشتے كوئى حرام عمل نہيں كرتے، اور نہ ہى برائى كا ارتكاب كرتے ہيں.

اور پھر جس عورت كو اس كاخاوند ہم بسترى كے ليے بلائے اور وہ انكار كر دے تو ايسى عورت لعنت كى مستحق ٹھرتى ہے؛ كيونكہ اس نے اپنے پروردگار اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم كى مخالفت كى ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ اپنے خاوند كى بات نہيں مان نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حق كے بعد عورت پر اپنے خاوند كا عظيم حق ہے.

شيخ الاسلام بن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے حق كے بعد عورت پر اپنے خاوند كا واجب ہے حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہاں تك فرمايا ہے:

" اگر ميں كسى شخص كو كسى دوسرے كے ليے سامنے سجدہ كرنے كا حكم ديتا تو خاوند كے عظيم حق كى بنا پر بيوى كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كے سامنے سجدہ كيا كرے "

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 275 ).

اوپر كى سطور ميں ہم جو بيان كر چكے ہيں وہ مطلقا ايسا نہيں بلكہ شريعتا سلاميہ ميں عورت كے ليے جماع اور ہم بسترى سے انكار كرنے كا حق اس صورت ميں ہے كہ بيوى بيمار ہو اور ہم بسترى اس كے ليے مشقت كا باعث ہو، يا پھر حيض يا نفاس كى حالت ميں ہو يا فرضى روزہ ركھا ہوا ہو تو وہ انكار كر سكتى ہے.

ليكن اس صورت ميں بھى اسے اپنے خاوند كو استمتاع سے منع كرنے كا حق نہيں، ليكن خاوند اس حالت ميں بيوى سے دخول نہيں كريگا، بلكہ صرف استمتاع اور لطف اندوزى كى حد تك رہےگا، كيونكہ حيض اور نفاس كى حالت ميں جماع حرام ہے، ليكن اس كے علاوہ اگر بيوى معذور ہے تو اسے خاوند كو جماع سے روكنے كا حق نہيں، اگرچہ بيوى جماع كى رغبت نہ بھى ركھتى ہو تو بھى اسے خاوند كى حاجت پورى كرنا ہوگى، تاكہ وہ اپنى شہوت پورى كر سكے.

يہ بالكل اس زمين كى طرح ہے جو اپنے اندر بيج بونے سے كسى كو منع نہيں كر سكتى، اور اللہ رب العالمين نے بھى يہى تشبيہ ديتے ہوئے فرمايا ہے:

تمہارى عورتيں تمہارى كھيتياں ہيں، تو تم اپنى كھيتى ميں جہاں سے چاہو آؤ البقرۃ ( 223 ).

ليكن اس صورت ميں معاملہ مختلف ہوگا كہ بيوى اپنے خاوند كو ہم بسترى كى دعوت دے؛ كيونكہ بيوى اپنى شہوت تو اسى صورت ميں پورى كر سكتى ہے جب خاوند كو ہوگى اور اگر خاوند كو شہوت نہيں تو بيوى بھى اپنى شہوت پورى نہيں كر سكتى، يہ كسى پر بھى مخفى نہيں، اور نہ ہى يہ چيز تفصيل كى محتاج ہے، ليكن خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ بيوى كو ضرر و نقصان دينے كے ليے اس كى شہوت پورى نہ كرے.

ان مسائل كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 33597 ) اور ( 9602 ) اور ( 5971 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

چہارم:

اگر اللہ كے علاوہ كسى دوسرے كو سجدہ كرنے كا حكم ديا جاتا تو عورت كو حكم ديا جاتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے ـ چاہے يہ خاوند كيسا ہى ہو وہ اس سے حسن معاشرت كرنے والا ہو يا سوء معاشرت اور اپنے مزاج كے مطابق سلوك كرے !! .

قيس بن سعد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر ميں كسى شخص كو كسى دوسرے كے سامنے سجدہ كرنے كا حكم ديتا تو عورتوں كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوندوں كو سجدہ كيا كريں كيونكہ اللہ تعالى نے انہيں عورتوں پر بہت حق ديا ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2140 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار دياہے.

يہ سجدہ تعظيمى نہيں ہے كيونكہ سجدہ تعظيمى تو اللہ سبحانہ و تعالى كے ليے ہے كسى اور كے ليے جائز نہيں، اس سجدہ سے مراد اور مقصود ملاقات كے وقت سجدہ سلام اور ملاقات ہے، ليكن اس ميں عجمي لوگوں كے ساتھ مشابہت پائى جاتى تھى كہ عجمى اپنے بادشاہوں كو سجدہ كيا كرتے تھے اس ليے ہمارے پروردگار نے ہمارے ليے مشروع نہيں كيا.

يہ حديث اس بات كى دليل ہے كہ خاوند كو اپنى بيوى پر بہت زيادہ عظيم حق حاصل ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ نے حديث كے آخر ميں فرمايا ے، ليكن اس كا معنى يہ نہيں كہ عورت كے حقوق سلب كرليے گئے ہيں، اور خاوند اپنى بيوى كے واجبات اور حقوق كى ادائيگى ضرور كريگا اس ميں كوئى نزاع نہيں، عقل و دانش مند خواتين كو خوب علم ہے كہ شادى ميں كيا عظيم نعمت پائى جاتى ہے، اور انہيں بخوبى علم ہے كہ ان كى زندگى ميں خاوند كے وجود كا كيا اثر ہے، اور عورت دوسرى يا تيسرى يا چوتھى بيوى بننا اسى ليے قبول كرتى ہے كہ اسے خاوند كى نيكيوں اور اچھائيوں كا علم ہوتا ہے اور اپنى زندگى ميں ايك خاوند كى كيا اہميت ہے وہ اس سے بخوبى واقف ہوتى ہے تبھى وہ دوسرى يا تيسرى بيوى بننا قبول كرتى ہے.

تو يہاں اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خاوند كے عظيم حق كى خبر دى تا كہ بيوى اپنے اوپر واجبات كى ادائيگى بخوبى سے كر سكے، اور اس كے مقابلہ ميں خاوند كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے اپنے اوپر بيوى كے واجب كردہ حقوق كى ادائيگى ميں كوتاہى كا مرتكب ہو، جو كوئى بھى گمراہ ہو اس كا وبال تو اس كى اپنى جان پر ہى ہے، اس ليے بيوى كو اللہ كى جانب سے واجب كردہ حقوق كى ادائيگى كرنى چاہيے اور جو حقوق خاوند پر بيوى كے واجب ہيں ان كا بہتر طريقہ سے مطالبہ كرنا چاہيے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 43252 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، اس ميں خاوند كى فضيلت كے اسباب بيان كيے گئے ہيں اور بيان ہوا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے نگرانى اور حكمرانى مرد كے ہاتھ ميں ركھى ہے.

اور سوال نمبر ( 43123 ) كے جواب ميں بيان كيا گيا ہے كہ بيوى كے ليے خاوند كى اطاعت والدين كى اطاعت پر مقدم ہوگى.

اور سوال نمبر ( 10680 ) كے جواب ميں خاوند اور بيوى كے حقوق كا تفصيلى بيان ہوا ہے آپ اس كا ضرور مطالعہ كريں.

پنجم:

اس كا يہ كہنا:

" مرد كے ليے دو يا تين يا چار بيوياں كرنا جائز ہيں؛ كيونكہ يہ زنا سے بہتر ہے، ليكن اس عورت كے متعلق كيا ہے جسے اس كا خاوند ويسے ہى چھوڑ دے ؟! وہ مال دے كر خلع حاصل كر كے اپنى جان چھڑائے اور پھر اس كے بعد مشكلات كا شكار رہے ! "

خلع اللہ سبحانہ و تعالى نے مشروع كيا ہے اور اس كى مشروعيت ميں عظيم حكمت پائى جاتى ہے، كيونكہ بعض اوقات عورت اپنے يا خاوند كى جانب سے كسى سبب كے باعث خاوند كے ساتھ زندگى بسر نہيں كر سكتى، اور عورت كے اندر جو تبديلى آئى ہے بعض اوقات خاوند كا كوئى قصور اور گناہ نہيں ہوتا، اور خاوند اسے مہر ادا كر چكا ہوتا ہے اس ليے خاوند كو اپنا وہ مہر واپس لينے كا حق حاصل ہے ـ اگر وہ مہر كا مطالبہ كرتا ہے تو ـ اور بيوى اپنے خاوند كے ساتھ نہيں رہنا چاہتى تو علماء كرام نے اسے طلاق دينا قبول كرنا واجب كيا ہے كہ وہ اس صورت ميں اسے طلاق دے، اور بعض علماء نے مستحب قرار ديا ہے، ليكن يہ ياد رہے بيوى كے ليے بغير كسى شرعى سبب كے خلع طلب كرنا حلال نہيں، اگر وہ بغير كسى شرعى سبب كے خلع طلب كرتى ہے تو اسے شديد وعيد كا سامنا كرنا ہوگا.

اور بعض حالات ميں شرعى قاضى كى جانب سے عورت كو طلاق دينے پر مجبور كيا جاتا ہے، مثلا خاوند اپنى بيوى كو زدكوب كرتا اور اس سے برے سلوك كا مرتكب ہوتا ہے يا سب و شتم كرتا ہو اور اپنى اصلاح نہ كرنا چاہے يا اس طرح كے اور حالات كى بنا پر قاضى طلاق دينے كا كہے.

اسى طرح اگر اس حالت ميں خاوند طلاق دينے سے انكار كرتا ہے تو قاضى كو طلاق دينے كا حق ہوگا، يا پھر اگر خاوند غائب ہے اور بيوى كو خاوند غائب ہونے كا نقصان اور ضرر ہے تو اس صورت ميں بھى قاضى طلاق دينے كا حق ركھتا ہے، اور اس ميں بيوى كو پورے حقوق ديے جائيں گے.

ان حالات كى تفصيل اور احكام معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 34579 ) اور ( 5288 ) اور ( 9021 ) اور ( 12179 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

خاوند كے ليے بيوى كو تنگ كرنا حلال نہيں كہ وہ اپنے كچھ حقوق سے دستبردار ہو جائے يا سارے حقوق ہى چھوڑ دے اس كى تفصيل آپ كو سوال نمبر ( 42532 ) ميں مليں گى.

خلع كے احكام معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 1859 ) اور ( 26247 ) اور ( 34579 ) كے جوابات كامطالعہ كريں.

ششم:

اس عورت كا يہ كہنا كہ:

" طلاق ہونے كى حالت ميں عورت بچے كى تربيت كرے اور شب بيدارى كرتے ہوئے بہت سارے مشكل مراحل برداشت كرے اور بعد ميں جب بچہ كھانے پينے اور چلنے اور خود صفائى كرنے كے قابل ہو تو باپ آ كر اسے لے جائے ! ".

يہ مطلقا صحيح نہيں، بلكہ اس كے ليے درج ذيل امور كا علم ہونا چاہيے:

ا ـ چھوٹے اور دودھ پيتے بچے كى پرورش ماں كا حق ہے اور يہ دين اسلام كے محاسن ميں شامل ہوتا ہے؛ كيونكہ اس عمر ميں بچہ ماں كى رحمدلى اور شفقت كا محتاج ہوتا ہے! تو كيا اس حكم ميں كوئى ايسى چيز ہے جس كى بنا پر دين اسلام پر عيب جوئى كى جائے؟!

پھر يہ بھى علم ہونا چاہيے كہ يہ چيز مطلقا نہيں بلكہ يہ صرف اس وقت تك ہے جب تك وہ كہيں اور نكاح نہيں كرتى اور اگر وہ كسى دوسرے خاوند سے نكاح كر ليتى ہے تو پرورش كا حق بچے كى ماں سے كسى دوسرے كو منتقل ہو جائيگا، اس كى تفصيل اہل علم كى كتب ميں ديكھى جا سكتى ہيں.

ب ـ پھر يہ ہے كہ جب بچہ اپنى صفائى ستھرائى كرنے اور كھانے پينے كے قابل ہو جائے تو باپ آ كر بچہ ويسے ہى نہيں لے جائيگا، بلكہ بچے كو ماں اور باپ ميں سے كسى ايك كے ساتھ رہنے كا اختيار ديا جائيگا، ليكن لڑكى كو اختيار نہيں ديا جائيگا؛ كيونكہ بچى كا والد اس كو اپنے پاس ركھنے كا زيادہ حقدار ہے؛ كيونكہ لڑكى كو ولى اور ديكھ بھال كى ضرورت ہے اور عورت كى بجائے اس ميں مرد زيادہ اولى ہے اور زيادہ طاقت ركھتا ہے.

يہ بھى علم ميں رہے كہ يہ حكم اس صورت ميں ہے جب ماں اور باپ دونوں كا دين اور عادل ہونا برابر ہو، اور اگر ماں يا باپ ميں سے كوئى ايك فاسق ہو اور اس كا فاسق ہونا ثابت ہو جائے يا پھر بچے كو برائى كى طرف لے جاتا ہو اور اسے شر و برائى سكھائے تو اسے پرورش كا حق نہيں ديا جائيگا، جب بچہ تميز كى عمر كو پہنچے تو اسے اختيار بھى نہيں ديا جائيگا، اور اسى طرح اگر والد برائى اور شر كا مالك ہو تو لڑكى اس كے سپرد نہيں كى جائيگى.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہمارے استاد و شيخ كا كہنا ہے: اور جب ماں اور باپ ميں سے كسى ايك نے بھى اللہ كى جانب سے واجب كردہ امور اور بچے كو تعليم دينا ترك كر ديا تو وہ نافرمان اور گنہگار ہوگا، اس صورت ميں اسے بچے كى ولايت حاصل نہيں ہوگى بلكہ جو كوئى بھى ولى ہونے ميں واجب كى ادائيگى نہ كرے اسے اس بچے پر ولايت حاصل نہيں ہوگى.

اس صورت ميں يا تو وہ اپنا ہاتھ اس كى ولايت سے اٹھا لےگا اٹھا لےگا، اور جو واجب ادا كرےگا وہ اس كا ولى بن جائيگا، يا پھر اس بچے كو ان كے ساتھ ملا ديا جائيگا جو واجبات كى ادائيگى كرتا ہو، مقصد يہ ہے ك اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كرنا ہوگى.

ہمارے استاد كا قول ہے: يہ ورراثت كى طرح حق نہيں ہے كہ جو رشتہ دارى اور نكاح اور ولاء كى بنا پر حاصل ہو جائے چاہے وارث فاسق ہو يا نيك و صالح ہو وہ وراثت كا حقدار ہوتا ہے، بلكہ يہ تو ولايت ميں شامل ہوتا ہے جس ميں واجبات كى ادائيگى پر قدرت اور ان واجبات كا حسب امكان علم ہونا ضرورى ہے.

استاد صاحب كہتے ہيں: اگر بالفرض باپ نے ايسى عورت سے شادى كر لى جو اس كى بيٹى كى مصلحت كا خيال نہيں كرتى اور اس كى ديكھ بھال نہيں كرتى اور وہ بچى كى ماں اس كى مصلحت كى زيادہ ديكھ بھال كرتى ہو تو سوكن كى بجائے بچى كى ماں كو پرورش كا حق ديا جائيگا.

ان كا كہنا ہے: يہ معلوم ہونا ضرورى ہے، كہ شارع سے كوئى ايسى عام نص نہيں ملتى جس ميں ماں اور باپ كو حق پرورش ميں مطلقا مقدم كيا گيا ہو، اور اسى طرح بچے كو بھى والدين ميں سے كسى ايك كو اختيار كرنے كى مطلقا نص نہيں ملتى، ليكن علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ مطلق طور پر ان ميں سے كسى ايك كو متعين نہيں كيا جائيگا، بلكہ عدل و انصاف اور محسن كے مقابلہ ميں كوتاہى كرنے والے اور دشمنى ركھنے والے كو مقدم نہيں كيا جائيگا " واللہ تعالى اعلم.

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 475 - 476 ).

ہفتم:

اس عورت كا يہ كہنا كہ:

" گرمجوشى كے تعلقات كے وقت مرد كو انزال كر كے استمتاع كا حق حاصل ہے، ليكن عورت اس وقت تك استمتاع نہيں كر سكتى جب تك اس كا خاوند اس سے استمتاع نہ  كرے اور لطف اندوز نہ ہو، جب خاوند صرف اپنى خواہش پورى كرنے كا ارادہ ركھتا ہو بيوى كيا كرے ؟!!

ايسا كرنا خاوند كى غلطى ہے، علماء كرام نے خاوندوں كو بار ہا متبہ كيا ہے كہ وہ اس امر كى ضرورت پر متنبہ رہيں، اور بيوى كو بھى جماع كا حق استمتاع حاصل ہے، بالكل جس طرح خاوند كو جماع سے حق استمتاع ہے بيوى كو بھى ويسے ہى حق حاصل ہوتا ہے، اور اگر خاوند بيوى كے انزال كے بعد خاوند انزال كرے تو يہ بہتر ہے، اور اگر بيوى سے پہلے انزال كر دے تو وہ بيوى كے ساتھ اس وقت تك باقى رہے جب تك بيوى اپنى حاجت پورى نہ كر لے، اگر كوئى شخص اس كى مخالفت كرتا ہے تو يہ اس كى غلطى ہے، اور يہ اس كا سلوك ہے جو وہ اسے صرف اپنى ذات كے ليے پسند كرنے پر ابھار رہا ہے ليكن شريعت اسلاميہ اس جيسے فعل سے بالكل برى ہے.

شيخ محمد العبدرى ابن الحاج رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" خاوند كو چاہيے كہ جب وہ اپنى حاجت پورى كر لے تو بيوى كے پاس سے اٹھنے ميں جلدى مت كرے؛ كيونكہ اس سے بيوى كو پريشانى ہوگى، بلكہ خاوند كو اس وقت تك اس كے ساتھ ہى رہنا چاہيے جب تك بيوى اپنى حاجت پورى نہ كر لے.

مقصد يہ كہ بيوى كى خواہش اور حاجت كا بھى خيال كرنا چاہيے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ نے عورتوں كے بارہ ميں بہت زيادہ وصيت فرمائى ہے، اور ان كے ساتھ احسان كرنے كى ترغيب دلائى ہے، اور يہ وقت اور مقام ايسا ہے كہ خاوند كے علاوہ بيوى كے ساتھ كوئى دوسرا احسان نہيں كر سكتا، اس ليے وہ اس حالت ميں بھى بيوى كے ساتھ حسن سلوك كرنے كى كوشش كرے، اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آدمى كى غلطياں معاف فرمائے"

ديكھيں: المدخل ( 2 / 188 ).

بلكہ شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے حنابلہ كے خلاف اس فعل كو حرام كہنا راجح قرار ديا ہے، حالانكہ حنابلہ اسے مكروہ كہتے ہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

 قولہ: " بيوى كے فارغ ہونے سے قبل ہى اخراج " يعنى مكروہ ہے، خاوند كے ليے بيوى كے فارغ ہونے سے قبل باہر نكالنا مكروہ ہے كيونكہ حديث ميں ہے:

" جب مرد اپنى حاجت پورى كر لے تو وہ جلد بازى نہ كرے حتى كہ عورت بھى اپنى حاجت پورى نہ كر لے "

النزع كا معنى يہ ہے كہ انسان جماع سے فارغ ہو جائے تو بيوى كے فارغ ہونے سے قبل ہى عورت كى شرمگاہ سے اپنا عضو تناسل باہر نكال لے، يعنى بيوى كے انزال اور اس كى شہوت سے فارغ ہونے سے قبل ہى باہر نكال لے، كيونكہ شہوت پورى تو انزال كے ساتھ ہوتى ہے.

چنانچہ مؤلف يہ كہہ رہے ہيں كہ: ايسا كرنا مكروہ ہے، ليكن اس قول ميں نظر ہے، صحيح يہ ہے كہ عورت كے انزال اور شہوت پورى كرنے سے قبل خاوند كا باہر نكال لينا حرام ہے؛ كيونكہ ايسا كرنے سے تو بيوى كو لذت نہيں آئيگى اور وہ لذت سے محروم رہتى ہے، اور وہ اس طرح اسے پورى طرح لطف اندوز ہونے سے محروم كر رہا ہے، اور ہو سكتا ہے بيوى كو اس سے ضرر بھى حاصل ہو، كيونكہ انزال كا وقت بالكل تيار ہو جب وہ باہر نكال لے تو بيوى كا انزال ہو ہى نہ.

انہوں نے جو  حديث ذكر كى ہے وہ بھى ضعيف ہے، ليكن من حيث النظر صحيح ہے، جس طرح آپ انزال كرنے سے قبل باہر نكالنا پسند نہيں كرتے اسى طرح بيوى بھى چاہتى ہے كہ آپ جلد بازى سے كام مت ليں "

ديكھيں: الشرح الممتع على زاد المستقنع ( 12 / 417 ).

ہشتم:

عورت كا يہ كہنا كہ:

" ليكن عورت اور اس كے حقوق كے متعلق كيا ہے ؟ اسے كہا جاتا ہے كہ تم اپنے حقوق حاصل كرنے كے ليے عدالت سے رجوع كرو، ہم ايك ايسے مردانہ معاشرے ميں رہ رہے ہيں جو مرد كا ساتھ ديتا ہے چاہے مرد غلط ہوں اور ظلم بھى كريں، ليكن اس كے مقابلہ ميں عورت سے صبر و تحمل كا مطالبہ كيا جاتا ہے، اور كہا جاتا ہے ازدواجى زندگى كو مستقل چلانے كے ليے تم اپنے كچھ حقوق سے دستبردار ہو جاؤ تا كہ خاوند بھى راضى ہو جائے.

كيونكہ طلاق كے بعد جو حالات اس كے انتظار ميں ہيں وہ تو موجودہ صورت حال سے بھى سخت اور مشكل ہيں كيونكہ معاشرہ مطلقہ عورت كو اچھى نظر سے نہيں ديكھتا اور بچوں كى تربيت و پرورش كا بھى مسئلہ رہےگا، اور دوسرى شادى كے ليے بھى مشكلات ہونگى، بعض معاشروں ميں تو عورت بہت ہى شديد سختيوں كا شكار رہتى ہے "

شرعى عدالت مرد كا مرد ہونے كى بنا پر ساتھ نہيں ديتى، اور اسى طرح خانگى مسائل ميں فيصلے كرنے والے جج اور قاضى حضرات بھى مرد كا ساتھ نہيں ديتے، اور اگر كوئى كسى غلط اور ظالم شخص كا ساتھ دے اور اس كى مدد كرے اور اس كى تائيد كرتا ہے تو وہ بھى اس كى غلطى اور ظلم ميں شريك ہوگا چاہے وہ مرد ہو يا عورت.

عادتا عورت كے خاندان والے مثلا اس كا والد اور چچا اور بھائى وغيرہ عورت كو مدد و نصرت كى ضرورت كے وقت ويسے ہى نہيں چھوڑتے، وہ اسے حقوق دلانے اور معاملات كو سلجھانے ميں عورت كى مدد كرتے ہيں.

اور اگر عورت كا ساتھ دينے كے ليے عورت كے خاندان ميں كوئى نہ ہو، اور معاشرے ميں عورت پر ظلم كيا جا رہا ہو يا پھر ظالم كى مدد كرے تو اس صورت ميں عورت كو شرعى عدالت ميں جانے كا حق حاصل ہے؛ تا كہ شرعى عدالت اسے اس كے حقوق دلائے، ليكن ہم ديكھتے ہيں كہ اكثر اوقات تو عورت ہى اپنے خاندان والوں كى تذليل اور رسوائى كا باعث بنتى ہے!

جب خاندان والے عورت كے ساتھ كھڑے ہوتے ہيں اور اس كى مدد و نصرت كرنے كى كوشش كرتے ہيں، اور اس صورت حال كو ديكھ كر خاوند بيوى كے ساتھ ميٹھى باتيں كر كے بيوى كو منا ليتا ہے اور بيوى اس كى باتوں ميں آ كر چپكے سے خاندان والوں كو بتائے بغير ہى خاوند سے جا ملتى ہے!

باوجود اس كے كہ عقلمند باپ اكثر اس سے ناراض نہيں ہوتے، كيونكہ انہيں علم ہے كہ بيوى اپنے خاوند اور گھر اور اولاد سے بہت تعلق ركھتى اور محبت كرتى ہے، ليكن انہيں تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب وہ ان سے مدد مانگتى ہے، اور اپنے خاوند كے ساتھ ازدواجى زندگى ميں شكايات كا سيلاب لاتى ہے، اور طلاق لينے پر اصرار كرتى ہے، اور پھر تھوڑے ہى وقت ميں يہ سب كچھ ختم ہو جاتا ہے تا كہ وہ اپنے خاوند سے جا كر مل جائے.

اكثر اوقات تو خاوند كى طبيعت ميں كوئى بھى تبديلى نہيں آتى، حقيقت تو يہ ہے كہ ہم عورت ميں وہ صبر و تحمل اور برداشت ديكھتے ہيں جو خاوندوں ميں نہيں پايا جاتا، لگتا ہے اسى بنا پر علماء كرام عورت كو صبر و تحمل اور برداشت كى نصيحت كرتے ہيں، يہى نہيں بلكہ وہ اسے دعا كى نصيحت بھى كرتے ہيں، اور اس كے ساتھ ساتھ خاوند كى ہدايت كے ليے مختلف قسم كے اسباب اور ذرائع بھى مہيا كرنے كا كہتے ہيں، كہ وہ اس كى ہدايت كے ليے خاوند كى مدد و نصرت كرے.

اس كے ساتھ ساتھ عورت كو نصحيت كى جاتى ہے كہ وہ اپنے خاوند كى نفسياتى حالت كا بھى خيال كرے، اور كام كاج اور زندگى كے دباؤ كو بھى مدنظر ركھے جس كى بنا پر اكثر لوگ اپنے اعصاب پر قابو نہيں پا سكتے، اور صحيح راہ سے ہٹ جاتے ہيں، جى ہاں يہ چيز ان كے ليے عذر تو نہيں ليكن يہ فى الواقع ايسے ہى ہے.

نہم:

ہم اس عورت كے ليٹر كا جواب خاوند اور بيوى كے ليے اس ياد دہانى كے ساتھ ختم كرتے ہيں كہ دونوں ہى اللہ سبحانہ و تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كريں اور تقوى كے ساتھ ازدواجى زندگى بسر كريں، اور دونوں علم ميں ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ہر ايك كو اپنے شريك حيات كے ساتھ حسن سلوك كرنے كا حكم ديا ہے.

اور جس عورت نے يہ سوالات اور اعتراضات لكھے ہيں اسے علم ہونا چاہيے كہ يہ چيز ان بہت سارے امور ميں شامل ہوتى ہے جس ميں شريعت مطہرہ نے خاوند اور بيوى كے مابين احكام برابر ركھے ہيں، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

اور ان عورتوں كو بھى ويسے ہى حقوق حاصل ہيں جيسے ان عورتوں پر ( خاوند كے ) حقوق ہيں، اچھے طريقہ سے، اور مردوں كو ان عورتوں پر فضيلت حاصل ہے، اور اللہ عزوجل غالب و حكمت والا ہے البقرۃ ( 228 ).

امام طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ان عورتوں كو بھى اپنے خاوند پر حسن معاشرت كا حق حاصل ہے، كہ خاوند بھى ان كے ساتھ حسن صحبت اور حسن معاشرت كريں، بالكل اسى طرح جس طرح عورتوں پر ہے كہ وہ اپنے خاوندوں كى اللہ كے واجب كردہ امور ميں اطاعت كريں.

ديكھيں: تفسير الطبرى ( 4 / 531 ).

اور حافظ ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يعنى ان عورتوں كے بھى مردوں پر اسى طرح حقوق ہيں جس طرح ان مردوں كے عورتوں پر حقوق ہيں، چنانچہ ہر ايك دوسرے كے واجب حقوق كى ادائيگى كرے، جيسا كہ صحيح مسلم ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كے موقع پر فرمايا تھا:

" عورتوں كے بارہ ميں اللہ كا تقوى اختيار كرو، كيونكہ تم نے انہيں اللہ كى امانت كے ساتھ حاصل كيا ہے، اور ان شرمگاہوں كو اللہ كے كلمہ كے ساتھ حلال كيا ہے، تمہارا ان پر يہ حق ہے كہ جسے تم ناپسند كرتے ہو وہ تمہارے بستر پر مت بيٹھے، اگر تو وہ ايسا كريں تو تم انہيں ہلكى پھلكى مار كى سزا دو، اور انہيں ان كا نان و نفقہ اور لباس اچھے طريقہ سے ديا جائيگا "

اور بہز بن حكيم كى روايت ميں ہے جو و معاويہ بن حيدۃ القشيرى سے وہ اپنے باپ اور دادا سے بيان كرتے ہيں كہ  انہوں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہمارى بيويوں كا ہم پر كيا حق ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ علي وسلم نے فرمايا:

" جب تم كھاؤ تو بيوى كو بھى كھلاؤ، اور جب تم لباس پہنو تو بيوى كو بھى پہناؤ، اور اس كے چہرے پر مت مارو، اور اسے بدصورت و بدشكل مت كہو، اور گھر كے علاوہ اس سے كہيں بھى بائيكاٹ مت كرو "

وكيع بشير بن سليمان سے وہ عكرمہ سے وہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں انہوں نے فرمايا:

" ميں پسند كرتا ہوں كہ اپنى بيوى كے زيب و زينت اور بناؤ سنگھار كروں بالكل اسى طرح جس طرح مجھے پسند ہے كہ بيوى ميرے ليے بناؤ سنگھار كرے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ان عورتوں كو بھى ( خاوندوں پر ) ويسے ہى حقوق حاصل ہيں جيسے ان پر ( خاوندوں كے ) حقوق ہيں، اچھے طريقہ كے ساتھ "

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 609 - 610 ).

ہم خاوند اور بيوى كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنے اختلافات كو اہل علم اور حل و عقد والے علماء كرام كے ہاں پيش كريں، اور عدالتوں ميں شكايات كرنے كى جلدى نہ كريں اور انہيں علم ہونا چاہيے كہ وہ دونوں ہى اپنى اولاد كى تعليم و تربيت اور پرورش كے ذمہ دار ہيں، اس ليے دونوں كو تفرق اور كوئى غلط كام كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے، تا كہ شادى كے پروگرام كو ناكامى سے بچايا جا سكے.

اور انہيں اس ميں اختلافات سے اجتناب كرنا چاہيے، تا كہ معاشرے ميں ايسى اولاد نكلے جو اختلافات اور طلاق يافتہ گھر سے نكلى ہو، اور برائى كا شكار ہو جائيں.

اميد ہے ہمارى كلام لكھنے والى اس عورت كے خاوند تك بھى پہنچےگى، اور وہ اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرتے ہوئے اپنى اصلاح كرتے ہوئے جو خرابي كى ہے اس كى اصلاح كريگا، اور بيوى سے دور نہيں رہےگا.

اسى طرح ہم عورت كو بھى وصيت كرتے ہيں كہ وہ بھى اللہ كا تقوى اختيار كرے، اور اس سے جو الفاظ اور افعال صادر ہوئے ہيں اس سے توبہ و استغفار كرے كيونكہ ان كا كرنا اور ادائيگى جائز نہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كے گھروں كى اصلاح اور حفاظت فرمائے، اور ماؤں اور باپوں كو ايسے كام كرنے كى توفيق دے جس ميں انكى اصلاح پائى جائے اور ان كى اولاد كى بھى اصلاح ہو.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب