جمعہ 19 جمادی ثانیہ 1446 - 20 دسمبر 2024
اردو

بيوى نے زنا كيا اور خاوند نے اسے راز ميں ہى رہنے ديا تو كيا اس پر حد جارى كرنا افضل ہے يا وہ توبہ كر لے ؟

118538

تاریخ اشاعت : 22-12-2008

مشاہدات : 6816

سوال

برائے مہربانى ميرے سوال كا تفصيلى اور شافى جواب ديں جو ميرے دل كو اس چيز سے ٹھنڈا كر دے جو ميں نے اپنے رب اور اپنے خاوند اور اپنى جان كے حق ميں جرم كيا ہے، ميں قصہ لمبا نہيں كرنا چاہتى، يہ علم ميں رہے ميں توبہ كر چكى ہوں، اللہ كى قسم ميں روزانہ اپنے جرم كا سوچتى رہتى ہوں كہ كس طرح ميں اس معصيت كا ارتكاب كر بيٹھى، حالانكہ ميں ايك ديندار اور نيك خاندان ميں پلى اور جوان ہوئى ہوں، جو كتاب و سنت پر عمل پيرا ہے ميں آپ كو اللہ كا واسطہ ديكر كہتى ہوں مجھے معلومات فراہم كريں، ميں نے ايسا جرم كيا ہے جس ميں حد لگتى ہے اور ميرے خاوند كو اس كا علم ہے، اس نے مجھے رسوا كيے بغير ہى مجھے طلاق دے دى، اور پھر مجھ سے رجوع كر ليا اور ميرے گناہ پر پردہ ڈال ركھا، اور ہم نے آپس ميں اتفاق كيا كہ مجھ پر حد لگائى جائے! تو ميرا خاوند ايك عالم دين كے پاس گيا اس نے جواب ديا كہ اس پر پردہ ڈالو، اور وہ اپنے رب كے ہاں توبہ و استغفار كرے، اور اپنى اصلاح كر لے مجھے جتنا دينى علم ہے اس كے مطابق ميرے علم ميں آيا ہے كہ اللہ تعالى زانى كو قبر ميں عذاب ديگا، تو كيا اگر ميں نے توبہ كر لى اور اپنى اصلاح كر لى تو موت كے بعد مجھے عذاب ہو گا ؟
برائے مہربانى مجھے شافى جواب ديں، ميں سب آراء اور احكام كا مطالعہ كريا ہے، ليكن مجھے صحيح اور غلط كا علم نہيں ہو سكا، برائے مہربانى معلومات فراہم كريں، كيا مجھ پر حد جارى كرنا واجب ہے، يا كہ ميرى توبہ ہى كافى ہے اور ميں سارى زندگى ذليل ہو كر بسر كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہم اپنا جواب مسلمانوں كو تقوى اور اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كى نصيحت سے كرتے ہيں كہ وہ لوگوں كے حالات سے عبرت و نصيحت پكڑيں، اور اپنے آپ يہ اعتقاد مت ركھيں كہ وہ فحاشى اور برائيوں ميں پڑنے سے دور ہيں بلكہ وہ برى صحبت اور ہيجان آميز دوستى سے دور رہيں اور ان ميں كوئى بھى ايسى لذت حاصل كر كے اپنے آپ پر ظلم نہ كرے كہ لذت ختم ہو جائے اور حسرت و افسوس باقى رہے اور وہ اسى حالت ميں رب سے جا ملے، كيونكہ اللہ كى نافرمانى كرنے والے ہر بندے كو سچى توبہ كرنے كا موقع نہيں ملتا، بلكہ كوئى بندہ ہو سچى توبہ كر كے نيكياں كرتا ہے.

دوم:

ہمارے اپنے پروردگار كى حمد و ثنا بيان كرتے ہيں جو توبہ قبول كرنے والا اور رحم كرنے والا ہے اس كى اتنى ثنا اور تعريف جس كا وہ اہل ہے، يقينا وہ اللہ تقوى و مغفرت كا مالك ہے، اور ہم اللہ سبحانہ و تعالى كا شكر اور اس كى تعريف كرتے ہيں كہ اس نے آپ كو توبہ كرنے كى توفيق بخشى، اور آپ كے ليے صحيح راہ كى طرف پلٹنا آسان كيا كيونكہ ہر معصيت و نافرمانى كرنے والے كو معصيت سے چھٹكارے كى توفيق حاصل نہيں ہوتى، اور نہ ہى ہر كوئى معصيت كے بعد توبہ كرتا ہے، آپ كو تو اللہ سبحانہ و تعالى نے يہ توبہ كرنے كى توفيق دى اس سے آپ اپنے رب كى جتنى بھى تعريف اور اس كا شكر ادا كريں كم ہے، اللہ عزوجل كى كثرت سے حمد و ثنا اور تعريف كيا كريں.

كيونكہ اگر اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو توبہ كى توفيق نہ ديتا تو آپ اس نعمت سے لطف اندوز نہ ہوتيں، اور آپ كے دل ميں اس معصيت كا مرتكب ہونے كى جو حسرت و الم باقى ہے اميد ہے اللہ تعالى اسے آئندہ يہ معصيت كرنے ميں ديوار اور حائل بنا ديگا، اور ہو سكتا ہے اس الم اور تكليف كى بنا پر كوئى ايسا آنسو نكل آئے جو دل سے معصيت و نافرمانى كے خبث كو پاك كردے، اور اميد ہے كہ اس معصيت كے بعد آپ كى يہ تكليف و الم ايسا اطاعت پيدا كر دے جس پر آپ ہميشہ قائم رہيں، حتى كہ آپ اپنے رب سے جا مليں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور دن كے دونوں سروں ميں نماز پڑھا كرو، اور رات كى كئى ساعتوں ميں بھى، يقينا نيكياں برائيوں كو دور كر ديتى ہيں، يہ نصيحت ہے نصيحت پكڑنے والوں كے ليے ھود ( 114 ).

سوم:

ہم شريف الاصل اور ذكى خاوند كى جتنى بھى تعريف كريں كم ہے، جس نے اپنى نادم اور تائب بيوى كو ذليل نہيں كيا اور اس كے معاملہ كو اچھالا نہيں، اور يہ عقلمندى اور ذكاوت و شرف النسل اور بہتر دين والا ہونے كى علامت ہے، ہم اسے خوشخبرى ديتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى كسى مومن شخص كى دنياوى تكليف دور كى اللہ تعالى روز قيامت اس كى تكليف دور كريگا، اور جس كسى نے كسى تنگ دست پر آسانى كى اللہ تعالى اس پر دنيا و آخرت ميں آسانى فرمائيگا، اور جس كسى نے كسى مسلمان كى ستر پوشى كى تو اللہ تعالى دنيا و آخرت ميں اس كى ستر پوشى كريگا، اور اللہ تعالى بندے كى معاونت ميں رہتا ہے جب كوئى بندہ اپنے بھائى كى مدد و معاونت كرتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2699 ).

چہارم:

ہم صاحب ذكاوت اور توفيق پانے والے خاوند كو كہينگے: عالم دين نے اسے جو كچھ كہا ہے كہ بيوى كا پردہ ركھو، اور وہ اپنى اصلاح كر لے، يہ چيز تو متعين ہے، اور كسى بھى شخص كے ليے كسى حد لاگو ہونے والے جرم كے مرتكب شخص پر خود ہى حد جارى كرنا جائز نہيں، بلكہ حدود تو شرعى حكمران يا اس كا نائب جارى اور لاگو كريگا، اور پھر آپ ايسے ملك ميں زندگى بسر كر رہے ہيں جہاں حدود كا نفاذ نہيں، اور نہ ہى اللہ كى شريعت كا نفاذ كيا جاتا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" علماء كرام كا كہنا ہے: امام يا جس كے امام سپرد كر دے اسكے علاوہ كوئى اور حد لاگو نہيں كر سكتا " انتہى.

ديكھيں: شرح المسلم ( 11 / 193 ).

خاوند اور بيوى كو علم ہونا چاہيے كہ: اگر وہ دونوں مسلمان ملك ميں رہتے ہيں، اور ان كا حكمران شرعى حدود كا نفاذ كرتا ہے، تو ہم انہيں يہ نصيحت نہيں كرتے كہ وہ قاضى يا حاكم كے پاس جائيں تا كہ اس كى بيوى پر حد لگائى جا سكے، كيونكہ گنہگار كا اپنے آپ پر پردہ ڈالنا اسے ذليل كرنے اور گناہ كو ظاہر كرنے سے بہتر ہے، چاہے اس كے بعد اس كو پاك كرنے والى حد لگائى جائے، ہم اسے بھى وہى نصيحت كرتے ہيں جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور خليفہ راشد ابو بكر اور عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہما نے كى تھى.

صحيح مسلم ميں روايت ہے كہ:

" ماعز رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور كہنے لگے:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے پاك كريں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:

تيرے ليے ہلاكت ہو جاؤ جا كر اللہ تعالى سے توبہ و استغفار كر لو "

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس قصہ ( يعنى ماعز رضى اللہ تعالى نے جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر زنا كا اقرار كيا) سے يہ اخذ كيا جا سكتا ہے كہ: اس طرح كے معاملہ ميں واقع ہونے والے كے ليے اللہ كى طرف توبہ كرنا اور اپنے گناہ پر پردہ ڈالنا مستحب ہے، اور وہ كسى كے سامنے اس كا اظہار نہ كرے، اور نہ ہى اپنے آپ كو رسوا كرے، اور نہ ہى اسے قاضى اور حاكم كى طرف اس معاملہ كو اٹھائے، جيسا كہ اس قصہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر تم اسے اپنے كپڑے سے چھپا ليتے تو تيرے ليے يہ بہتر تھا "

امام شافعى رحمہ اللہ نے بھى بالجزم كہا ہے: ميں يہ پسند كرتا ہوں كہ جو شخص كوئى گناہ كر بيٹھے اور اللہ تعالى نے اس پر پردہ ڈال ديا ہو تو وہ اپنے آپ پر پردہ ڈالے ركھے اور توبہ كر لے، انہوں نے ابو بكر اور عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے ساتھ ماعز كے قصہ سے استدلال كيا ہے " انتہى.

ديكھيں: فتح البارى ( 12 / 124 - 125 ).

پنجم:

ہم سوال كرنے والى بہن سے گزارش كرينگے كہ توبہ كا دروازہ كھلا ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى رات كے آخرى حصہ ميں اپنے ہاتھ پھيلاتا ہے كہ دن كو گناہ كرنے والا رات كو توبہ كر لے، اور دن كو ہاتھ پھيلاتا ہے كہ رات ميں گناہ كرنے والا توبہ كر لے.

اور يہ علم ميں ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى اپنے بندوں كى توبہ قبول كرتا ہے، اور اگر وہ سچى توبہ كريں تو اللہ تعالى ان گناہوں كو نيكيوں ميں بدل ديتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور يقينا ميں بہت بخشنے والا ہوں جو توبہ كريں اور ايمان لائيں اور نيك عمل كريں اور راہ راست پر بھى رہيں طہ ( 82 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور وہ لوگ جو اللہ كے ساتھ كسى دوسرے كو معبود نہيں بناتے اور كسى ايسے شخص كو جسے قتل كرنا اللہ تعالى نے حرام كيا ہے وہ بجز حق كے اسے قتل نہيں كرتے، اور نہ وہ زنا كے مرتكب ہوتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائيگا .

اسے قيامت كے روز دوہرا عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذلت و خوارى كے ساتھ ہميشہ اسى ميں رہيگا .

سوائے ان لوگوں كے جو توبہ كريں اور ايمان لائيں اور نيك كام كريں، ايسے لوگوں كے گناہوں كو اللہ تعالى نيكيوں ميں بدل ديتا ہے، اور اللہ بخشنے والا مہربانى كرنے والا ہے الفرقان ( 67 - 70 ).

اور ايك مقام پر اس طرح فرمايا:

اور وہى ہے جو اپنے بندوں كى توبہ قبول فرماتا ہے، اور سب گناہوں سے درگزر فرماتا ہے، اور جو كچھ تم كر رہے ہو سب جانتا ہے

ايمان والوں اور نيك عمل كرنے والوں كى سنتا ہے، اور انہيں اپنے فضل و كرم سے بڑھا كر ديتا ہے، اور كفار كے ليے سخت عذاب ہے الشورى ( 25 - 26 ).

توبہ صحيح ہونے كے ليے كچھ شروط كا پايا جانا ضرورى ہے، اور وہ شروط درج ذيل ہيں:

1 - گناہ كو فورا چھوڑ دينا.

2 - اپنے فعل پر نادم ہونا.

3 - آئندہ وہ كام نہ كرنے كا عزم كرنا.

اللہ كى بندى آپ يہ علم ميں ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے توبہ كرنے والے بندوں پر فضل و كرم كيا ہے، اور ان سے وعدہ كيا ہے كہ ان كے گناہوں كو نيكيوں ميں بدل ديا جائيگا، اس ليے آپ شيطان سے بچ كر رہيں كہ كہيں وہ آپ پر تسلط نہ جما لے، اور آپ كے دل اور توبہ كے درميان حائل ہو جائے، يا پھر وہ آپ كو اللہ كى رحمت سے ناميدى ميں ڈال دے.

يہ بھى علم ميں ركھيں كہ وہ لعين اور خبيث شيطان بندوں كو صرف معصيت و نافرمانى ميں ڈال كر ہى بس نہيں كر جاتا، بلكہ وہ ان كے ساتھ ايك اور كھيل يہ كھيلتا ہے كہ انہيں گناہوں سے توبہ كرنے سے روك ديتا ہے، اس ليے آپ اس سے بچ كر رہيں.

اور يہ بھى علم ميں ركھيں كہ اللہ تعالى كا فضل و كرم بہت وسيع ہے، صرف يہ ہے كہ آپ اپنے اور اپنے پرودگار ميں مابين اصلاح كر ليں، اپنے معاملات رب سے درست كر ليں، تو اللہ تعالى آپ كا حامى و ناصر اور ولى ہے، وہ آپ كو سيدھى راہ كى توفيق بخشےگا، يہ جان ليں كہ توبہ كرنے ميں ذلت و رسوائى نہيں، بلكہ اصل ذلت و رسوائى تو اللہ كى نافرمانى و معصيت ميں ہے.

آپ توبہ كرنے سے ايك سعادت مند اور خوشى و راحت كى زندگى بسر كرينگى، جس ميں اللہ كا ذكر اور اس كى اطاعت و فرمانبردارى، اور اس كى توفيق و معاونت شامل ہے.

مزيد اہميت كى بنا پر آپ سوال نمبر ( 47834 ) اور ( 27113 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب