اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بہو اور سسرال کے ما بین مسائل کے اسباب اور انہیں حل کرنے کا طریقہ

سوال

سب سے پہلے تو میں آپ کے لیے دعا گو ہوں کہ آپ اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہت بڑی خدمت پیش کر رہے ہیں، اور میرا سوال یہ ہے کہ: میں اپنے ذاتی معاملات میں اپنے سسرالی رشتہ داروں کی مداخلت سے کیسے نمٹ سکتی ہوں؟ اگر میں ان کو جواب دوں تو کیا اسے بد اخلاقی سمجھا جائے گا؟ کیونکہ وہ اس قسم کے ہیں کہ اگر میں خاموش رہوں تو وہ مجھ پر چڑھ دوڑیں گے! اللہ ہی جانتا ہے کہ میں نے کئی بار ان کی دخل اندازی کو نظر انداز کیا ، حالانکہ وہ مجھے کئی بار مشتعل کرنے کی کوشش کر چکے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کو نظر انداز کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے، کیونکہ ان کے بے جا سوالات اور اعتراضات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ کی قسم -شیخ محترم- ایک بار میرے شوہر میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو میری ایک نند نے دوسری شادی کی بات میرے ہی سامنے کر ڈالی اور کہنے لگی: آپ کو دوسری شادی کرنے میں کیا حرج ہے؟ اور میں وہیں بیٹھی تھی، اور اس نے میرے جذبات کی پرواہ نہیں کی۔ حالانکہ ابھی میری شادی کو زیادہ وقت بھی نہیں گزرا تھا، اور میں ان کے ہاں ملنے گئی ہوئی تھی۔ اللہ کی قسم! انہیں تو میری بِڑائی یا بُرائی کا کچھ نہیں پتہ کہ انہیں ا س طرح کی بات کرنے کی گنجائش ملے!! اگر میرا شوہر میرے کسی کام پر میری تعریف کر دے - جو کہ ان کے سامنے شاذ و نادر ہی ہوتا ہے – تو میری نند کہتی ہے: یہ تو اس کا فرض ہے [اور فرائض کی ادائیگی پر تعریف نہیں ہوتی!] ۔ یہ سب کچھ میرے سامنے ہوا۔ اور - اللہ کی قسم - میں نے کبھی ایک لفظ بھی نہیں کہا،کیونکہ ہمارے گھر میں میری اور میری بہنوں کی تربیت ہی اس انداز میں ہوئی ہے کہ ہم کسی کی بد تمیزی کا جواب ہی نہ دیں۔ یہاں تک کہ مجھے تو شائستگی سے جواب دینا بھی نہیں آتا، اور اگر دوں بھی تو بہت ہی شاذ و نادر ہوتا ہے، اور پھر اس کے بعد میرا ضمیر بھی مجھے جھنجھوڑتا ہے۔میں ان کی دخل اندازی اور اعتراضات کے بارے میں بہت کچھ بتلا سکتی ہوں، ان کے اعتراضات بچے کو دودھ پلانے ، نہلانے اور صفائی ستھرائی کے بارے میں ہوتے ہیں۔ حالانکہ میرے شوہر کی گواہی کے مطابق، میں بچے اور اپنے خاوند کی دیکھ بھال میں کوتاہی نہیں کرتی۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ان کے بچے بھی یہی اعتراضات دہراتے ہیں، اس حد تک کہ اب مجھے ان کے پاس جانے اور ملنے سے بھی نفرت ہے، اور جب میں ان کے پاس جاتی ہوں تو میں یہ ظاہر نہیں کرتی کہ میں ان سے تنگ ہوں۔ کبھی کبھی وہ مجھے زچ کر دیتی ہے اور مجھے تکلیف دیتی ہے، لیکن میں اپنا رویہ صحیح رکھتی ہوں، لیکن میں اندر سے بہت ناراض ہوتی ہوں۔ مزید یہ کہ میرے شوہر نے کہا: اگر تم کسی کو بتاؤ کہ میرے گھر والے تمہارے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں تو میں اللہ کے سامنے تم سے اس بارے میں پوچھوں گا!! سوالات: اس حوالے سے میں نے پہلے ہی اپنی بہن اور اپنے بھابھی سے بات کی تھی کہ میرے سسرال والے میرے ساتھ کیا کرتے ہیں اور ان کا رویہ کیسا ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ وہ دونوں ہی نہایت عقلمند ہیں اور انہوں نے مجھ سے کہا: ان چیزوں کے بارے میں شائستگی سے جواب دو جن کے بارے میں آپ خاموش نہیں رہ سکتیں، اور جس چیز کو نظر انداز کر سکتی ہو اسے نظر انداز کر دو۔ اگر میں ایسا کروں تو کیا میں گناہ گار ہوں گی؟ کیا میرے شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مجھے میرے ساتھ ہونے والے برتاؤ کے بارے میں کسی بھی شخص سے بات کرنے سے روک دے؟ کیونکہ ہر شخص کو اپنے مسائل اور پریشانیوں کو کسی کے سامنے رکھنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس طرح سینہ ہلکا ہو جائے۔ اللہ کی قسم! میں اندر سے اتنی بھری ہوئی ہوں کہ میں انہیں دیکھنا یا ان کی آوازیں سننا پسند نہیں کرتی، کیونکہ اب میں اپنے شوہر سے بھی خوش نہیں ہوں۔ میں کچھ ضدی ہو گئی ہوں اور میں نہیں چاہتی کہ اپنے خاوند کے ساتھ سخت لہجے میں بات کروں؛ کیونکہ میرے خاوند بھی مجبور ہیں کہ وہ اپنے اہل خانہ کی بدنامی نہیں کرنا چاہتے، لیکن مجھے ان لوگوں سے مشورہ لینے کا حق ہے جو مجھ سے بڑے ہیں اور زندگی کا تجربہ مجھ سے زیادہ رکھتے ہیں۔ کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ میں کسی قابل اعتماد شخص سے مشورہ کر کے اپنے دل کی باتوں کا اظہار کروں؟ یا میں دل ہی دل میں کڑھتی رہوں اور اندر ہی اندر سے گھائل ہوتی چلی جاؤں؟ میں اپنے شوہر اور سسرال والوں کے ساتھ رضائے الہی کے موجب طریقے سے کیسے پیش آسکتی ہوں کہ جس سے میرے حقوق بھی پامال نہ ہوں یا ان کے ساتھ میرے تعلقات بھی برابری کی بنیاد پر استوار رہیں۔ کیونکہ بہت سے خاندان تبھی تباہ ہو جاتے ہیں جب کوئی اپنی حد سے تجاوز کرے اور بلا روک ٹوک جارحیت کرتا چلا جائے ۔ کیا میرے لیے جائز ہے کہ مسائل سے بچنے کے لیے سسرالیوں کے قریب رہنے سے انکار کر دوں؟ اللہ تعالی آپ کو جنت عطا فرمائے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بہو اور سسرالی رشتہ داروں کے درمیان بہت سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اور کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے، ہمیں سب سے پہلے اس کے اسباب کا جائزہ لینا چاہیے:

1. اسباب شوہر کے خاندان کے رویے سے منسلک ہو سکتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے مصیبت پیدا کرنا فطرتِ ثانیہ ہے اور وہ رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں اور معمولی معمولی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ لیکن جب لوگ ایسے ہوتے ہیں تو مسائل صرف ان کے اور ان کی بہو کے درمیان نہیں ہوتے۔ بلکہ انہیں ہر کسی کے ساتھ مسئلہ ہوتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان کو صحیح اور غلط ، اچھائی اور برائی میں تفریق کے ساتھ ساتھ ایمان اور اللہ کی اطاعت کی تعلیم دینے کے لیے بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ اس صورت میں جو شوہر اپنے خاندان کی طبیعت اور رویہ سے واقف ہے اسے چاہیے کہ وہ اس کی بیوی کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس پر کوئی توجہ اور اہمیت نہ دے۔ اور اپنے گھر والوں کو نصیحت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور انہیں بھلائی کی طرف بلانا چاہیے اور اگر بیوی کو اس کے گھر والوں کی طرف سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اسے پیار محبت سے تسلی دے اور اس کی ڈھارس باندھے۔

2. مسائل کی وجہ دو طرفہ غلطی بھی ہو سکتی ہے: سسرالیوں کو جب نظر آئے کہ ان کا بیٹا یا بھائی اپنی بیوی سے کتنا پیار کرتا ہے اور وہ اس کے ساتھ کس طرح ہمدردی کرتا ہے تو ان کے دل میں منفی جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ مرد اپنے گھر والوں کے ساتھ اضافی شفقت اپنائے، ان کا خاص خیال رکھ کر اور انہیں ڈھیروں تحائف دے کر ان منفی جذبات کو ختم کرے، نیز ان کے سامنے اپنی بیوی کے ساتھ پیار بھرا انداز نہ اپنائے۔ مزید بر آں شوہر ان کی طرف خصوصی توجہ دے اور اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعائیں مانگے کہ اللہ تعالی ان کے گھر والوں کے دلوں سے منفی جذبات ختم کر دے۔

3. ان پریشانیوں کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سسرال والے بہو میں خاوند یا اپنے بچوں پر توجہ کی کمی محسوس کریں، یا گھر کی دیکھ بھال میں کوتاہی نظر آتی ہو، یا بہو کی جانب سے ساس کے ساتھ غیر مناسب رویہ روا رکھا جاتا ہو، یا اسی طرح کی کوئی اور حقیقی کمی جو بہو میں پائی جائے محض الزامات نہ ہوں ، اور اس طرح کے مسائل بہت سے بیویوں میں عموماً پائے جاتے ہیں تو ، ان تمام وجوہات میں سے صرف یہ ایک ایسی وجہ ہے جو کہ حقیقت میں مثبت چیز ہے؛ کیونکہ اس کے ذریعے بیوی کو اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کا احساس ہو سکتا ہے اور جس کی بدولت بہو اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کر سکتی ہے اور ماحول کو اچھا بنا سکتی ہے؛ کیونکہ عورت بطور بہو اپنے رویے اخلاق اور تعامل میں کامل ہونے کا دعوی نہیں کر سکتی۔ ساس اور بہو کے درمیان پائے جانے والے مسائل کا سب سے آسان ترین سبب یہی ہے، کیونکہ حل آسان بھی ہے اور بہو کے لیے ممکن بھی کہ یہاں بیوی اپنی اصلاح خود کر سکتی ہے ، چنانچہ اپنے اور اپنے شوہر کے خاندان کے درمیان اپنے رویے کو بہتر بنا کر اور ہر ایک کو اس کی عزت کا حق دے کر بہتر کر سکتی ہے۔ اس طرح بہو صورت حال کو ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور اپنے شوہر کا دل جیت سکے گی۔

دوم:

ہمارا خیال یہ ہے کہ بیوی کو اپنے شوہر کی بات ماننی چاہیے اگر وہ اسے کہے کہ اس کے اور اس کے خاندان کے درمیان جو کچھ ہوتا ہے وہ کسی اور کو نہ بتائے۔ شوہر کی طرف سے یہ فیصلہ ایک اہم مقصد کو پورا کرتا ہے جو بیوی کے سینے کو ہلکا پن دینے سے کہیں بڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایسی باتیں لوگوں میں عام ہو جائیں تو ہر کوئی اپنی رائے زنی کرے گا یا بیوی کو استعمال کر تے ہوئے کوئی مکاری کرے گا یا ان مسائل کو حل کرنے کے لیے غلط مشورے دے گا جس سے معاملات مزید خراب ہوں گے۔ مسائل، اور پریشانی کے مزید اسباب پیدا ہوں گے، جس کے نتیجے میں اس کے بعد حل تلاش کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی عقلمند کے سامنے اپنے مسائل رکھ کر ان سے مشورہ کرے اور یہ حرام غیبت میں نہیں آتا ، اس کے لیے آپ سوال نمبر: (7660) کا جواب ملاحظہ کریں۔ ساتھ ہی شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بیوی کو اس مباح کام سے روکے، اگر وہ سمجھے کہ اس طرح کوئی جائز مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ نے اپنے خاوند کے مشورے پر عمل نہ کر کے، اور آپ کے اور آپ کے شوہر کے خاندان کے درمیان جو کچھ چل رہا ہے اس کے بارے میں اپنی بہن اور اپنے بھابھی سے بات کر کے غلطی کی ہے۔ اسے درست کرنے کے لیے، آپ توبہ اور استغفار کریں، اور اس بارے میں ان سے مزید بات نہ کریں۔ نیز آپ ان سے گزارش کریں کہ آپ نے جو کچھ بتایا ہے وہ سب کچھ کسی اور کو نہ بتائیں۔ آپ کو شوہر کے سامنے اعتراف کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ نے کیا کیا، کیونکہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ بلکہ اس کے نتیجے میں مزید پریشانی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، وہ آپ سے ناراضی شروع کر سکتا ہے ۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپ کو آپ کی بہن اور بھابھی سے بات کرنے سے بالکل روک دے۔ یہ سب ممکن ہے، کیونکہ شیطان ایسے وقت خوب تیاری کے ساتھ موجود رہتا ہے اور ایسے وقتوں میں بہت مؤثر بھی ہوتا ہے، وہ لڑائی کے لیے شعلوں کو بھڑکائے گا، معاملے کو بڑھاوا دے گا اور اس مسئلے کی وجہ سے تم دونوں کے درمیان دشمنی اور ناراضی پیدا کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔

سوم:

شوہر اور سسرالیوں کے ساتھ برتاؤ کے لیے آپ کی طرف سے بڑی حکمت کی ضرورت ہے۔ اور آپ - ان شاء اللہ – یہ کام کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں، جیسے کہ آپ نے سوال میں واضح طور پر کہا ہے کہ: " کیونکہ ہمارے گھر میں میری اور میری بہنوں کی تربیت ہی اس انداز میں ہوئی ہے کہ ہم کسی کی بد تمیزی کا جواب ہی نہ دیں۔ یہاں تک کہ مجھے تو شائستگی سے جواب دینا بھی نہیں آتا، اور اگر دوں بھی تو بہت ہی شاذ و نادر ہوتا ہے، اور پھر اس کے بعد میرا ضمیر بھی مجھے جھنجھوڑتا ہے۔ " اور آپ نے اپنے بارے میں یہ بھی بتلایا کہ: " اور جب میں ان کے پاس جاتی ہوں تو میں یہ ظاہر نہیں کرتی کہ میں ان سے تنگ ہوں۔ کبھی کبھی وہ مجھے زچ کر دیتی ہے اور مجھے تکلیف دیتی ہے، لیکن میں اپنا رویہ صحیح رکھتی ہوں، لیکن میں اندر سے بہت ناراض ہوتی ہوں۔ " یہ وہ کام ہے جو خود پر قابو رکھنے والے کے سوا کوئی نہیں کر سکتا اور ایسا اقدام عقلمندوں کے سوا کسی کو کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔

اب آپ سے جو مطلوب ہے وہ یہ ہے:

1- جن باتوں کے بارے میں آپ کو یقین ہو کہ ان باتوں کا مقصد آپ کو پریشان اور مشتعل کرنا ہے اور آپ کو یقین ہے کہ وہ سب کچھ جھوٹ ہے تو اپنے سسرال کی طرف سے ایسی تمام باتوں کو نظر انداز کر دیں۔

2-اپنے آپ ، اپنے گھر ، اور بچوں کے بارے میں جو باتیں بھی سچی ان سے سنتی ہیں ان پر دھیان دیں اور کوتاہیاں ختم کریں۔ کیونکہ آپ پر لازم ہے کہ آپ اپنی غلطیوں کو درست کریں اور ان ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے سر انجام دیں۔

3-سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ پیار بھرا سلوک کرنے کی کوشش کریں، اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں، نرمی سے بات کریں اور نرمی سے پیش آئیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ انہیں وقتاً فوقتاً مناسب تحائف دیں، ان کی خبر گیری کریں، یا کوئی کھانے کی چیز آپ ان کے لیے بنائیں، یا مٹھائی وغیرہ خصوصی طور پر ان کے لیے بنا کر بھیجیں۔ کیونکہ یہ بات مشہور ہے کہ تحائف لوگوں کو اکٹھا کرنے اور ان کے درمیان پیار و محبت پھیلانے میں بہت زیادہ اثر ڈالتے ہیں۔

4-اپنے شوہر کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں اور اس کے لیے کسی کو یہ نہ بتائیں کہ ان کا خاندان آپ کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے، اور اسے اپنے آپ پر مزید اعتماد دلائیں؛ خاوند کو آپ کی طرف سے کوئی ایسی چیز سننے یا دیکھنے کا موقع نہ دیں جو خاوند کو پسند نہ ہو۔

5-تاہم ان سب کے باوجود ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے خلاف لگائے جانے والے من گھڑت الزامات کے بارے میں مکمل طور پر خاموش رہیں۔ لیکن ہم آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ آپ اس بارے میں اپنے شوہر سے بات کریں، اور آپ کے خاوند کو ہی ان معاملات کو سدھارنے اور ہر ایک کو ان کا حق پہچانے کی ذمہ داری لینے دیں۔ اسے دکھائیں کہ آپ کے خاندان نے آپ کی اچھی پرورش کی۔

6-آخر میں، آپ کی طرف سے اپنے شوہر کو یہ مشورہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ہم سسرالی رشتہ داروں سے دور چلے جائیں اور ان کے قریب نہ رہیں۔ تاہم، خاوند آپ کے اس مشورے کو قبول کرنے کا پابند نہیں ہے۔ آپ کا حق صرف علیحدہ رہائش کا ہے، اور یہ آپ کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ لیکن حکمت اور آپ کے بہترین مفادات کا یہ تقاضا ہے کہ شوہر اپنے خاندان سے مزید دور رہے، اگر خاوند کو معلوم ہو کہ اس کے گھر والوں اور اس کی بیوی کے درمیان کوئی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو رہی ہے تو شاید دور رہنا تمام فریقوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، اور ان کے بیمار جذبات اور دلوں سے ناراضی کو ختم کر سکتا ہے۔

آپ اللہ سے اپنے لیے مدد مانگیں ۔ اور ساتھ ہی اللہ تعالی کی طرف سے فرض کردہ فرائض ادا کریں۔ ہم بھی اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کو ایسے کام کرنے کی توفیق دے جس میں اللہ تعالی کی خوشنودی ہو اور آپ سب کے لیے خیر پر متحد ہونے کا ساماں ہو۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب