الحمد للہ.
علماء كرام كے ہاں اس ميں اختلاف ہے كہ آيا بانجھ پن نكاح ميں عيب شمار ہوتا ہے يا نہيں:
اس ميں دو قول پائے جاتے ہيں:
پہلا قول:
جمہور اہل علم كے ہاں يہ عيب شمار ہوتا ہے، ليكن حسن بصرى رحمہ اللہ نے اسے ايسا عيب قرار ديا ہے جس كى بنا پر نكاح فسخ ہوتا ہے، اور امام احمد نے مستحب قرار ديا ہے كہ شادى سے قبل بانجھ پن كے متعلق بتا دے.
دوسرا قول:
ہر وہ عيب جس سے خاوند اور بيوى ميں ايك دوسرے سے نفرت پيدا ہوتى ہو اور اس سے نكاح كا مقصد محبت و مودت اور رحمدلى پيدا نہ ہو تو وہ عيب ہے اور اس سے اختيار واجب ہو جاتا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ نے يہى فيصلہ كيا اور اس كى دليل بھى دى ہے، اور بعض معاصر اہل علم جن ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ شامل نے بھى اس كى موافقت كى ہے، ان كى رائے ہے كہ بانجھ پن ہونا يعنى بچہ پيدا نہ كر سكنا ايسا عيب ہے جو خاوند يا بيوى كو اختيار واجب كرتا ہے.
ان كا كہنا ہے: اور صحيح يہ ہے كہ ہر وہ جس سے نكاح كا مقصد فوت ہو جائے عيب كہلاتا ہے، اور بلاشك نكاح كے سب سے اہم مقاصد ميں متعہ يعنى فائدہ حاصل كرنا، اور خدمت اور اولاد پيدا كرنا ہے، اس ليے اگر اس ميں كوئى مانع ہو تو وہ عيب كہلائيگا.
اس بنا پر اگر بيوى اپنے خاوند كو بانجھ پائے، يا پھر خاوند بيوى كو بانجھ پائے تو يہ عيب ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 220 ).
يہ بيان ہو چكا ہے كہ راجح قول بھى يہى ہے جيسا كہ تفصيل كے ساتھ سوال نمبر ( 43496 ) كے جواب ميں واضح كيا جا چكا ہے.
اور سوال نمبر ( 111980 ) كے جواب ميں بيان كيا گيا ہے كہ اگر وہ عيب يا مرض عارضى ہو اور اس كا علاج كے ذريعہ خاتمہ ہو سكتا ہو تو اس كا بتانا لازم نہيں.
ليكن.... اس معاملہ كى خطرناكى كو مدنظر ركھتے ہوئے ( يعنى اولاد پيدا نہ ہونا ) كيونكہ اولاد كا حصول نكاح كے اساسى مقاصد ميں شامل ہوتا ہے، اس كو صراحت كے ساتھ بتانا اور واضح كر دينا ضرورى ہے تا كہ مشكل پيش نہ آئے.
اور انسان كو اپنے آپ پر اعتبار كرنا چاہيے كہ اگر وہ اپنى بيوى پر راضى نہيں ہوتا كہ وہ اس كو چھپائے تو اسے بھى نہيں چھپانا چاہيے بلكہ وہ بھى صريحا واضح كر دے، اور اس كے كوئى بات مت چھپائے، چنانچہ مرد كو بھى لوگوں كے ساتھ معاملہ بالكل اسى طرح كا كرنا چاہيے جس طرح وہ اپنے ساتھ كروانا چاہتا ہے.
واللہ اعلم .