منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

كيا ورثاء كےليے لڑكےاور لڑكي كوبرابرحصہ دينے پر اتفاق كرلينا جائز ہے؟

12221

تاریخ اشاعت : 10-07-2009

مشاہدات : 5253

سوال

ويب سائٹ پر وراثت كےسوالات اس صورت كےمتعلقہ ہيں جبكہ متوفي خاوند يا باپ ہو ، ليكن ميري حالت اس سےمختلف ہے وہ اس طرح كہ ميري والدہ فوت ہوچكي ہے اور اس نےاپنےخاندان كےليے وراثت ميں مال و دولت اور كچھ املاك چھوڑي ہے ، اولاد ميں سب سےبڑا ہونے كي بنا پر( اور ميں عورت ہوں ) تركہ كي تقسيم ميرے سپرد كي گئي ہے . آپ كےعلم ميں مندرجہ ذيل معلومات لانا چاہتي ہوں :
ميري والدہ اسلام قبول كرچكي تھي ، اور جب وہ فوت ہوئي تو انہوں نے ايك بہن اور دو بھائي سوگوار چھوڑے ( جو كہ سب غيرمسلم ہيں ) اور ان كےوالدين پہلے ہي فوت ہو چكےتھے .
ميري والدہ كي اولاد ميں تين بيٹياں اور دوبيٹےشامل ہيں ان ميں سےايك چھوٹا ہے ( ميرے ملك كےاسلامي قانون كےمفہوم ميں وہ اس طرح كہ جوبچہ بھي اٹھارہ برس كي عمر كا ہو اسے عاقل وبالغ شمار كيا جاتا ہے اور اس سے كم عمر كا بچہ چھوٹا شمار كيا جاتا ہے ) لھذا اس بناپر مسئلہ ميں قانوني وصي كا خيال ركھا جائے .
ميري والدہ كا خاوند جوكہ ميرے بہن بھائيوں كا باپ ہے ابھي بقيد حياۃ ہے ليكن ميں دوسرے والد كي اولاد ہوں جو فوت ہوچكے ہيں ، اس كےبعد والدہ نے دوسري شادي كرلي اور فوت ہونے تك وہ قانونا ان كي اكيلي بيوي تھي لھذا شرعي قانون كےمطابق تركہ كي تقسيم كس طرح ہوگي ؟
دوسرا سوال : مجھے علم ہوا ہے كہ ميت كا تركہ اسلامي طريقہ كے مطابق تقسيم كرنے كا حكم ہے ، ليكن وراثت كےمستحق ورثاء جب مذكورہ تركہ اپني ترتيب كے مطابق تقسيم كرنے پر موافق ہوں تو ان كا فيصلہ (overwrite يعني " كتابت ميں زيادہ ہو گا " ليكن سياق سے يہ بات سامنے آتي ہے كہ يہ فيصلہ اس قانون كو رد كردے گا . تو كيا يہ صحيح ہے ؟ جب ورثاء كا متفقہ فيصلہ قانون ( شرعي حكم ) كوختم كردےگا تواسے نافذ اور اس پر عمل كرنے كا صحيح طريقہ كيا ہے ؟
كيا پہلے شرعي حكم كےمطابق تركہ تقسيم كيا جائےگا ، اور پھران كے فيصلہ كےمطابق دوبارہ تقسيم ہوگي ، يا كہ ابتداء سے ہي ورثاء كي ترتيب كےساتھ تركہ كي تقسيم ممكن ہے ؟
برائے مہرباني اسے آپ تفصيل كےساتھ بيان كريں تاكہ ميں اس ذمہ داري كوشرعي قانون اور ان كےاتفاق نبھا سكوں ، اس سے كسي بھي كم چيز كا معني يہ ہوا كہ اللہ تعالي روز قيامت مجھے اس كا سوال كرےگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ايك چيز پر تنبيہ كرنا ضروري ہے وہ يہ كہ آپ نے سوال ميں قانون شريعت كےالفاظ كہے ہيں جوصحيح تعبير نہيں بلكہ آپ كوچاہيےتھا كہ اس كےبدلے آپ شريعت اسلاميہ كےاحكام كےالفاظ استعمال كرتيں .

آپ نےجوسوال كيا ہے اس سے وضاحت ہوتي ہے كہ وراثت آپ كي والد كے خاوند اور آپ بہن بھائيوں كےمابين ہي منحصر ہے ، ان ميں دو مرد اور اور دو ہي عورتيں ہيں .

آپ كے ليے مال تقسيم كرنے كا آسان طريقہ يہ ہے كہ مال كے بارہ حصے كريں جن ميں سے آپ كي والدہ كا خاوند تين حصے لےگا اور باقي سارا مال آپ اور آپ كےبہن بھائيوں كےمابين اس طرح تقسيم ہوگا كہ لڑكے كو دولڑكيوں كے برابر حصہ ملےگا ( يا باقي مال كوسات حصوں ميں تقسيم كريں جن ميں سے لڑكا دوحصے اور لڑكي ايك حصہ لےگي ) .

مثلا اگر دس ہزار روپيہ ہو تو اس ميں سے خاوند كو ( 2500 ) دے كر باقي ( 7500 ) بچےگا جو سات حصوں ميں تقسيم ہوگا تو اس طرح ايك حصہ ( 1071.5 ) روپے بنےگا جوكہ ايك لڑكي كا حصہ ہے تواسے دوسےضرب ديں تو ( 2143 ) روپے بنتے ہيں جوايك لڑكے كا حصہ ہوگا .

مذكورہ تقسيم اس وقت ہے جب ورثاء اپنا وہ حصہ حاصل كرنا چاہيں جو اللہ تعالي نے ان كےليے مقرر كرركھا ہے ، ليكن اگر ورثاء آپس ميں كوئي صلح صفائي كےساتھ تقسيم پر راضي ہوتے ہيں مثلا آپس ميں وہ برابر برابر لينے پر اتفاق كرليں توپھر خاوند اور اولاد ميں كوئي فرق نہيں ہوگا اور نہ ہي لڑكے اور لڑكي ميں فرق كيا جائےگا تو يہ بھي شرعا جائز ہے ، ليكن اس كي قانوني تطبيق اور نفاذ آپ كےملك كےنظام اورقانون پر منحصر ہے  .

ماخذ: الشیخ سعد الحمید