الحمد للہ.
متعدد فتاوی میں ہم یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ عورت کیلیے بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ہے، چاہے یہ سفر عبادت یعنی حج یا عمرے کیلیے اور والدین سے ملنے کیلیے ہو یا ان کے علاوہ دیگر جائز مقاصد کیلیے ہو۔
اس بات پر نصوص اور قیاس واضح طور پر دلالت کرتے ہیں:
1- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عورت صرف اپنے محرم کے ساتھ ہی سفر کرے، عورت کے پاس اجنبی شخص اسی وقت جائے جب اس کے ساتھ محرم ہو) تو ایک آدمی نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! میں فلاں فلاں معرکے کیلیے جانا چاہتا ہوں اور دوسری جانب میری بیوی حج پر جانا چاہتی ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اپنی بیوی کے ساتھ جاؤ)
بخاری: (1862) مسلم: (1339)
ایک اور حدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی خاتون کیلیے جائز نہیں ہے کہ وہ ایک دن کی مسافت محرم کے بغیر کرے)
اس بارے میں اور بھی بہت سی روایات مروی ہیں جن میں عورت کو بغیر محرم کے سفر سے روکا گیا ہے، اور ان تمام احادیث میں سفر کی تمام اقسام آتی ہیں۔
2- اور چونکہ سفر تھکاوٹ اور مشقت کا باعث ہوتا ہے، اور عورت اپنی جسمانی کمزوری کے باعث ایسے سہارے کی محتاج ہوتی ہے جو اس کے برابر کھڑا ہو اور اس کی مدد کرے، کبھی ایسا بھی ممکن ہے کہ عورت فوری ضرورت پڑنے پر درست فیصلہ نہ کر پائے اور محرم کی عدم موجودگی میں غیر معمولی صورت حال پیدا ہو جائے ، جیسے کہ یہ چیز ٹریفک اور دیگر ذرائع سفر کے حادثات میں عام ہے۔
اسی طرح عورت اکیلے سفر کرے تو یہ آج کل کی گرتی ہوئی اخلاقی صورت حال میں خواتین کو فتنوں اور گناہوں کے درپے کرنے کے مترادف ہے، تو ایسا ممکن ہے کہ عورت کے ساتھ ایسا شخص بیٹھ جائے جو اللہ کا ڈر اور خوف دل میں نہ رکھتا ہو اور لڑکی کو حرام کام خوشنما بنا کر دکھائے؛ اس لیے حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ خواتین محرم کے ساتھ سفر کریں؛ کیونکہ محرم کے ساتھ سفر کرنے کا مقصد عورت کو تحفظ دینا اور کسی بھی منفی اثرات سے بچانا اور عورت کی دیکھ بھال ہے، نیز سفر چھوٹا ہو یا لمبا دورانِ سفر ناگہانی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ بہت ہی قوی ہوتا ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خلاصہ یہ ہے کہ: جس بھی سفر کہا جائے گا اس سے عورت کو بغیر خاوند یا محرم کے سفر کرنے سے روکا جائے گا" انتہی
متعدد اہل علم نے فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے کہ عورت کیلیے محرم کے بغیر سفر کرنا منع ہے، ما سوائے چند مسائل کے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عورت فرائض کی ادائیگی [مثلاً: فرض حج] کیلیے کئے جانے والے سفر کے علاوہ کسی بھی سفر کیلیے محرم یا خاوند کے ساتھ سفر کرے گی، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، البتہ کوئی غیر مسلم خاتون کسی دار الحرب میں مسلمان ہو جائے یا ان کی قید سے آزاد ہو جائے تو وہ اکیلی سفر کر سکتی ہے" اس پر دیگر اہل علم نے اضافہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ: اگر کوئی خاتون اپنے رفقا ءسے بچھڑ جائے اور اسے کوئی قابل اعتماد شخص ملے تو وہ ان کے ساتھ اپنے رفقاء تک پہنچ سکتی ہے" انتہی
"فتح الباری" (4/76)
اور فرض حج کی ادائیگی کیلیے عورت کا اکیلے بغیر محرم کے سفر کرنے پر علمائے کرام کا اختلاف ہے، چنانچہ علمائے کرام کے صحیح موقف کے مطابق عورت کیلیے یہ سفر بھی اکیلے کرنا جائز نہیں ہے۔
اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (34380) میں گزر چکی ہیں۔
اس لیے اس مسئلے میں اصل یہی ہے کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے، اور پورے سفر میں محرم کا ساتھ رہنا لازمی ہے، چنانچہ یہ کافی نہیں ہو گا کہ خاوند بیوی کو ائیر پورٹ تک پہنچا دے اور دوسرے ملک میں والد اسے لے لے ، لیکن جہاں اس چیز کی ضرورت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ ضرورت ناجائز امور کو جائز بنا دیتی ہے۔
اس بنا پر اگر آپ کے دوست کی اہلیہ کیلیے فرانسیسی شہریت کا حصول بہت سی پریشانیوں کے زائل ہونے کا سبب بن سکتا ہے لیکن اس کا محرم اس کے ساتھ سفر نہیں کر سکتا تو پھر اکیلی اسی انداز سے سفر کر سکتی ہے جیسے آپ نے ذکر کیا ہے، اسی طرح اس کیلیے فرانسیسی شہریت حاصل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی عذر کی بنا پر عورت کیلیے جہاز میں اکیلے سفر کرنے کا کیا حکم ہے؟ کہ ایک محرم عورت کو جہاز پر بیٹھا دے گا اور دوسرا محرم ائیر پورٹ سے اسے لے لے گا"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر محرم کیلیے اس میں مشقت ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ اگر عورت کو سفر کی اشد ضرورت ہے اور کوئی محرم اس کے ساتھ جانے والا نہیں ہے تو اس میں ممانعت نہیں ہے، بشرطیکہ ایک محرم اسے ائیر پورٹ تک پہنچائے اور جہاز میں سوار ہونے تک اس کے ساتھ ہی رہے، پھر جہاں انہوں نے سفر کرنا ہے وہاں پر رابطہ کرے اور اطمینان کر لے کہ اس کے محرم اسے لینے کیلیے ائیرپورٹ پر پہنچ رہے ہیں ، انہیں پہنچنے کا وقت اور فلائٹ نمبر بتلا دے؛ کیونکہ اشد ضرورت کے وقت احکام کچھ خاص ہوتے ہیں، واللہ اعلم، اللہ تعالی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے" انتہی
ماخوذ از: "فتاوى ابن جبرين"
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (14235) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.