الحمد للہ.
اول:
جب مؤذن طلوع فجر كے وقت اذان ديتا ہو تو طلوع فجر سے ليكر غروب آفتاب تك روزہ توڑنے والى اشياء سے اجتناب كرنا واجب ہو جاتا ہے، لہذا جب مؤذن اللہ اكبر كہے تو فورا كھانے پينے اور جماع اور روزہ توڑنے والى اشياء سے رك جانا چاہيے.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب طلوع فجر ہو جائے اور اس كے منہ ميں كھانا ہو تو اسے باہر نكال دينا چاہيے، اگر تو وہ منہ سے باہر نكال ديتا ہے تو اس كا روزہ صحيح ہے، اور اگر اس نے نگل ليا تو اس كا روزہ ٹوٹ گيا...
اور اگر طلوع فجر ہو چكى ہو اور وہ بيوى سے مجامعت كر رہا ہو اگر تو فورى طور پر وہ رك جاتا ہے تو اس كا روزہ صحيح ہے، ليكن جب فجر طلوع ہو چكى ہو اور اسے طلوع فجر كا علم بھى ہو چكا ہے اور وہ پھر بھى مجامعت كرتا رہے تو اس كا روزہ باطل ہو جائيگا، اور اس ميں علماء كا كوئى اختلاف نہيں اور مذہب كے مطابق اس پر كفارہ ادا كرنا لازم ہے " انتہى
ديكھيں: المجموع ( 6 / 329 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے كہ:
" ہم ذكر كر چكے ہيں كہ طلوع فجر ہو جائے اور كسى كے منہ ميں كھانا ہو تو اسے منہ سے باہر نكال دينا چاہيے اور وہ اپنا روزہ پورا كر لے، ليكن اگر وہ طلوع فجر كا علم ہو جانے كے بعد اس كھانے كو نگل جائے تو اس كا روزہ باطل ہو جائيگا، اس ميں كوئى اختلاف نہيں، اس كى دليل ابن عمر اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہم كى حديث ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بلال رات كے وقت اذان ديتے ہيں تم كھايا پيا كرو حتى كہ ابن ام مكتوم اذان دے "
اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے، اور صحيح بخارى ميں اس معنى كى اور بھى كئى احاديث ہيں " انتہى
ديكھيں: المجموع ( 6 / 333 ).
اس بنا پر؛ اگر تو آپ كے محلہ كى مسجد كا مؤذن طلوع فجر كے وقت اذان ديتا ہے تو آپ كو اللہ اكبر سنتے ہى جماع سے رك جانا چاہيے.
اور اگر آپ كو علم ہو كہ مؤذن طلوع فجر سے قبل اذان ديتا ہے يا آپ كو شك ہو كہ پتہ نہيں وہ طلوع فجر سے قبل اذان ديتا ہے يا پھر طلوع فجر كے بعد تو آپ پر كچھ لازم نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے صبح يعنى طلوع فجر واضح ہونے تك كھانا پينا اور جماع مباح كيا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اب تمہيں ان ( بيويوں ) سے مباشرت كى اور اللہ تعالى كى لكھى ہوئى چيز كو تلاش كرنے كى اجازت ہے، تم كھاتے پيتے رہو حتى كہ صبح كا سفيد دھاگہ سياہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تك روزے كو پورا كرو البقرۃ ( 187 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر كوئى شخص دوران اذان يا اذان ختم ہونے كے پندرہ منٹ بعد سحرى كا كھانا كھائے تو اس پر كيا لازم آتا ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" اگر سوال ميں مذكور شخص كو علم ہے كہ يہ طلوع فجر سے قبل تھا تو اس پر قضاء نہيں، اور اگر اسے علم ہو كہ يہ طلوع فجر كے بعد ہے تو اس پر قضاء ہو گى.
ليكن اگر اسے علم نہيں كہ آيا اس كا كھانا پينا طلوع فجر سے قبل تھا يا بعد ميں تو اس پر كوئى قضاء نہيں، كيونكہ اصل ميں رات كا باقى رہنا ہے، ليكن مومن كو چاہيے كہ وہ اپنے روزے كے متعلق احتياط سے كام لے اور اذان سنتے ہى كھانے پينے اور روزہ توڑنے والى اشياء سے رك جائے، ليكن اگر اسے علم ہو كہ اذان طلوع فجر سے قبل ہوتى ہے تو پھر كھا سكتا ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 240 ).
دوم:
جب آپ اس حكم سے آپ جاہل تھے اور آپ كا خيال تھا كہ كھانا پينا اور روزہ توڑنے والى اشياء سے اذان كے آخر ميں ركنا چاہيے تو آپ پر كفارہ نہيں، احتياطاً آپ كو اس روزہ كى قضاء ميں ايك روزہ ركھنا چاہيے اور اس كے ساتھ ساتھ دينى امور كا علم حاصل نہ كرنے كى كوتاہى پر توبہ و استغفار كرنى چاہيے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 93866 ) اور ( 37679 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .