منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

فطرانہ كا حكم اور اس كى مقدار

سوال

كيا يہ مندرجہ ذيل حديث صحيح ہے :
" رمضان كے روزے اس وقت تك اٹھائے نہيں جاتے حتى كہ فطرانہ ادا كر ديا جائے "
اور اگر مسلمان روزے دار شخص محتاج اور ضرورتمند ہو جو زكاۃ كے نصاب كا مالك نہ ہو تو كيا اس كو بھى فطرانہ دينا واجب ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فطرانہ ہر مسلمان شخص پر فرض ہے، اور اس كى ادائيگى ہر وہ شخص كريگا جس كے پاس اپنے اور اپنے اہل و عيال كے ليے عيد كے دن اور رات كا خرچ ہو اس كے ليے ايك صاع فطرانہ ادا كرنا فرض ہے.

اس كى دليل ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى يہ حديث ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك صاع كھجور يا ايك صاع جو ہر مسلمان مرد و عورت آزاد اور غلام چھوٹے اور بڑے پر فطرانہ فرض كيا، اور حكم ديا كہ لوگوں كے عيد كى نماز كے ليے نكلنے سے قبل ادا كيا جائے "

متفق عليہ، مندرجہ بالا الفاظ بخارى كے ہيں.

اور ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موجودگى ميں ايك صاع غلہ يا ايك صاع كھجور يا ايك صاع جو يا ايك صاع منقہ يا ايك صاع پنير فطرانہ ادا كيا كرتے تھے "

متفق عليہ.

اور علاقے كى خوراك مثلا چاول وغيرہ كا ايك صاع ادا كرنے سے فطرانہ ادا ہو جائيگا.

يہاں صاع سے مراد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا صاع ہے اور وہ چار چلو جو كہ ايك معتدل شخص كے دونوں ہاتھ متوسط طور پر بھرے ہوں صاع بنتے ہيں.

اور اگر فطرانہ ادا كرنا ترك كر دے تو وہ گنہگار ہے اور اس كى قضاء واجب ہو گى.

آپ نے جو حديث بيان كى ہے ہمارے علم كے مطابق تو يہ صحيح نہيں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو توفيق عطا فرمائے، اور ہمارے اور آپ كے قول و عمل كى اصلاح فرمائے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

ماخذ: ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 364 )