اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی رضامندی شرط نہيں

12544

تاریخ اشاعت : 20-08-2003

مشاہدات : 9046

سوال

میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ مندرجہ ذیل موضوع میں کسی حدیث یا پھر شریعت اسلامیہ کی رائے کی معرفت میں میرا تعاون فرمائيں :
جب کوئي عورت کسی شخص سے شادی شدہ ہو اوراس نے دوسری کے علم کے بغیر کوئي اوربھی شادی کررکھی ہو ، یہ کہنے کی توضرورت نہیں کہ یہ حالت بہت مشکل ہے ، اوراس نے میرے ساتھ بہت دورکی حد تک استثناء کیا ہے ، لیکن ظاہر یہ ہوتا ہے کہ حالات کے لیے یہی افضل اوربہتر تھا ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ایک سے زيادہ شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کی رضامندی شرط نہيں ، اورنہ ہی خاوند پر فرض ہے کہ وہ جب دوسری شادی کرنا چاہے تواپنی پہلی بیوی کوراضی کرے ، لیکن یہ مکارم اخلاق اورایک اخلاقی فریضہ اوراس سے حسن معاشرت ہے کہ وہ اس کا بھی خیال رکھے اوراس کی تکلیف کوکم کرنے کی کوشش کرے جوکہ اس جیسے معاملے میں عورت کی طبیعت میں شامل ہوتی ہے ۔

اوراسے اچھی اوربہتر ملاقات اورملنے میں مسکراتے چہرے اوراچھی بات کہہ کر اوراگرکچھ مال میسر ہواوراس کی ضرورت تو وہ بھی دے کر راضی کیا جائے ۔ دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 204 ) ۔

خاوند پر واجب ہے کہ جب وہ دوسری شادی کرے تو حسب استطاعت اپنی بیویوں کے مابین عدل وانصاف کرے ، اوراگروہ عدل و انصاف نہیں کرتا توپھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جاری کردہ وعید میں شامل ہوگا۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس کی بھی دو بیویاں ہو اوروہ ان میں سے کسی ایک کی طرف مائل ہو توروز قیامت وہ اس حالت میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب بھی مائل ہوگی ) سنن نسائی باب عشرۃ النساء حدیث نمبر ( 3881 ) ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح سنن نسائي ( 3682 ) میں صحیح کہا ہے ۔

اورجب اللہ تعالی نے ہمارے لیے ایک سے زيادہ عورتوں کے ساتھ شادیاں کرنا مباح قرار دیا توکچھ اس طرح فرمایا :

، لیکن اگر تمہیں برابری اورعدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈي ، یہ زيادہ قریب ہے کہ تم ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ النساء ( 3 ) ۔

تواللہ تعالی نے یہ حکم دیا کہ اگر وہ انصاف نہیں کرسکتا ہے تو ایک ہی کافی ہے ۔

اللہ تعالی ہی سیدھے راہ کی توفیق بخشنے والا ہے ۔

دیکھیں فتاوی منار الاسلام ( 2 / 570 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد