جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

جوا كے بغير تاش كھيلنا

12567

تاریخ اشاعت : 28-03-2009

مشاہدات : 11326

سوال

جوا ( قمار بازى ) كے بغير تاش كھيلنا حرام كيوں شمار ہوتا ہے، ہم تاش مال پر نہيں كھيلتے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر تاش كھيلنا نماز ميں ركاوٹ اور سستى پيدا نہ كرے اور اس پر رقم بھى نہ لگائى گئى ہو تو تاش كھيلنے كا حكم كيا ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" تاش كھيلنا جائز نہيں، چاہے بغير عوض كے ہى كھيلے جائيں، اس ليے كہ اس كى حالت يہ ہے كہ يہ نماز اور اللہ كے ذكر سے مشغول كر ديتى ہے، اور اس ميں مانع بنتى ہے، اگرچہ يہ گمان كيا جائے كہ وہ اسے نہيں روكتى، پھر يہ جوا اور قمار بازى كا ذريعہ بھى ہے جسے نص قرآنى ميں حرام كيا گيا ہے:

بات يہى ہے كہ شراب اور جوا و قمار بازى اور تھان اور پانسے كے فال نكالنے كے تير يہ سب گندى باتيں اور شيطانى كام ہيں، تو اس سے باز آجاؤ تا كہ تم كامياب ہو سكو المائدۃ.

اور اس اثر كا معاشرے پر بھى اثر ہوتا ہے، بلا شبہ سليم اور پرامن معاشرے كے روابط دو چيزوں سے ثابت اور پورے ہوتے ہيں:

اللہ تعالى كے احكام كى پيروى كرنے، اور اس كےمنع كردہ سے ركنے سے، اور كسى بھى واجب اور فرض چيز كے ترك كرنے يا كسى حرام كام كے فعل سے معاشرہ ٹوٹ پھوٹ اور افتراق كا شكار ہو جاتا ہے.

اور يہ كھيل ان عوامل ميں شامل ہوتا ہے جو معاشرے پر اثرانداز ہوتے ہيں، كيونكہ يہ نماز باجماعت ترك كرنے كا باعث بنتا ہے، اور اس كھيل سے آپس ميں دورى اور بغض و كينہ اور حسد اور حرام كام كے ارتكاب ميں تساہل پيدا ہوتا ہے، اور اسى طرح يہ روزى كمانے ميں سستى اور كاہلى پيدا كرتا ہے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميہ ( 4 / 436 ).

رہا اس كھيل كى تاريخ كا مسئلہ كہ يہ كب اور كيسے شروع ہوا تو تحقيقا يہ علم نہيں تاش جيسى برى كھيل كا موجد كون ہے، يا يہ كھيل كب اور كہاں ايجاد ہوا ؟

يہ كہا جاتا ہے كہ اصلا يہ چينى، يا ہندى يا كہيں اور كا كھيل ہے، ليكن مورخين اس پر متفق ہيں كہ يہ كھيل مشرق وسطى سے قرون وسطى كے آخرى دور ميں يورپ منتقل ہوا، اور دانشور يہ بھى كہتے ہيں كہ: سب آراء متفق ہيں كہ اس وقت سے ليكر اب تك تاش كے كھيل نے بہت واضح ترقى كى ہے.

تاش كا كھيل ابتدائى طور پر يورپ ميں اندلس كے علاقے ميں شروع ہوا، اور پھر وہاں سے گيارويں صدى ميلادى ميں شمالى سپين منتقل ہو گيا.

سپين ميں تاش كا كھيل چاليس پتوں پر مشتمل ہے، جو ايك سے ساتھ نمبر پر مشتمل ہوتے ہيں، پھر تين اشخاص كا رتبہ سب سے اعلى ہے جو كہ نائب يعنى سردار كا ہوتا ہے، اور پھر اس كے بعد والا رتبہ اس كے وكيل اور پھر كاتب يا خادم كا ہے.

اور سولويں ( 16 ) صدى عيسوى ميں فرانسيسيوں نے تاش كے كھيل كو نئى شكل دى اور اس ميں ترقى كى كہ اس ميں سردار اشخاص كى بجائے بادشاہ پر مقتصر كرديا، اور سردار كے نائب كو ملكہ پر، اور كھلاڑى اور فارس كى بجائے خادم پر، اور اس ميں انہوں نے تين نمبروں كا اضافہ كر ديا تو اس طرح يہ پتے باون ( 52 ) ہو گئے.

اور سترويں ( 17 ) صدى عيسوى ميں جرمن والوں نے ايك چوتھے شخص كا اضافہ كيا جسے المھرج يا جوكر كا نام ديا.

تاش كھيلنے كے متعلق فتوى اوپر بيان ہو چكا ہے، اور سابقہ سطور ميں يہ بھى اضافہ كيا جاتا ہے كہ: تاش كھيلنے ميں مشروع تفريح و راحت كے اسلامى مقاصد منعدم ہيں، نہ تو اس سے جھادى مہارت حاصل ہوتى ہے، اور نہ ہى كسى بھى قسم كا علمى تجربہ، اور نہ ہى كوئى معاشرتى اور اجتماعى فائدہ حاصل ہوتا ہے، يا پھر اس سے نفسياتى راحت حاصل ہوتى ہو جس سے اعصاب كو سكون ملے، اور نفس كو خوشى و راحت حاصل ہو.

يہ ايك ايسا كھيل ہے جو ہر قسم كى خير و بھلائى سے عارى اور خالى ہے، بلكہ يہ كھيل تو صرف فتنہ و فساد، اور وقت كا ضياع ہے، جو تخمينہ و گمان اور چالاكى پر منحصر ہے، تو يہ نردشير كى مشابہ ہوا، اور يہ كھيل جھگڑا و فساد اور لڑائى كا باعث ہے، تو اس طرح يہ شراب اور جوئے و قمار بازى كے مشابہ ہوا.

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا نردشير پر قياس كرتے ہوئے كہ اس ميں اور تاش كے كھيل ميں پہلى چيز تو يہ ہے كہ يہ دونوں تخمينہ اور گمان و چالاكى پر مشتمل ہيں، اور دوسرى يہ كہ يہ دونوں ہى نزاع و جھگڑا اور لڑائى كا باعث بنتے ہيں، اس قياس كى وجہ سے يہ كوئى بعيد نہيں كہ آپ اسے مكروہ كى بجائے حرام والا قول اختيار كريں.

اور شيخ ابن حجر الھيثمى رحمہ اللہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے، اور ہمارے معاصر علماء كرام شيخ محمد بن صالح العثيمين نجدى علاقے كے فقھاء ميں شامل ہوتے ہيں انہوں نے بھى يہى اختيار كيا ہے، اور اسے اپنے مشائخ اور اساتذہ سے نقل كيا ہے، كيونكہ يہ عداوت و بغض كا باعث ہے، اور اللہ تعالى كے ذكر اور وقت كے ضياع اور اسے اللہ كى اطاعت كے علاوہ كسى اور ميں صرف كرنے كا باعث بنتا ہے.

اور اس قول كے اختيار كرنے كے صحيح ہونے كى تائيد اس سے بھى ہوتى ہے كہ فرانس كے ايك حكمران نے حكم جارى كيا تھا كہ يہ كھيل دن كے وقت نہ كھيلا جائے، اور اس نے دن كے وقت لوگوں كو تاش كھيلنے سے روكنے كا حكم ديا، اور جو بھى اس حكم كى خلاف ورزى كريگا اسے قصاص كے حكم كے تحت پكڑ ليا جائے، يہ حكم اس نے اس وقت جارى كيا جب فرانسي لوگ اس كھيل سے بہت زيادہ شغف ركھنے لگے، اور وہ اپنے كام سے بھاگ كر تاش كھيلنے ميں مصروف ہو جاتے.

اس حكمران نے جو قصاص كا فيصلہ كيا تھا وہ بڑھ كر قيد تك جا پہنچا، بلكہ كچھ ہى مدت گزرنے كے بعد اس نے اس قانون ميں مخالف كو لاٹھى كے ساتھ مارنے كا حكم بھى شامل كر ديا جو اسے زخم بھى لگائے.

ان احكام اور دوسرے قوانين كى بنا پر لوگوں نے تاش كھيلنے كى عادت ميں تبديلى لاتے ہوئے اسے علانيہ طور پر كھيلنے كى بجائے سرى اور چورى چھپے كھيلنا شروع كر ديا.

ماخوذ از كتاب: قضايا اللھو و الترفيہ تاليف مادون رشيد ( 185 - 187 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد